اسلام فطرت، عقل و حکمت اور سعادت کا مذہب
اس مادہ کے ترجمے
زمرے
Full Description
اسلام
فطرت، عقل و حکمت اور سعادت کا مذہب
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم واﻻ ہے۔
کیا آپ نے اپنے آپ سے سوال کیا :
آسمانوں و زمین اور ان میں موجود عظیم مخلوقات کو کس نے پیدا کیا؟ اور اس میں یہ دقیق نظام کس نے بنایا؟
یہ عظیم کائنات اپنے ان قوانین کے ساتھ کس طرح منظم اور مستحکم ہے جن قوانین نے سالہا سال سے اسے نہایت باریکی کے ساتھ منظم کر رکھا ہے ؟
کیا اس کائنات خود کو پیدا کیا ہے؟ یا یہ عدم سے وجود میں آئی ہے؟ یا اچانک سے اس کا وجود رونما ہوگیا؟
آپ کو کس نے پیدا کیا؟
تمھارے جسم اور تمام جانداروں کے جسموں میں یہ دقیق نظام کس نے قائم کیا؟
کوئی انسان یہ بات قبول نہیں کرے گا کہ یہ عمارت بغیر کسی کے بنائے ہوئے وجود میں آگئی؟ یا یہ کہ عدم نے اس عمارت کو وجود میں لایا! تو بھلا کچھ لوگ کیوں کر اس شخص کی تصدیق کرتے ہیں جو کہتا ہے کہ یہ عظیم کائنات بغیر کسی خالق کے وجود میں آگئی؟ بھلا کوئی عقل مند انسان کیسے یہ قبول کر سکتا ہے کہ کائنات کا یہ دقیق نظام اچانک سے وجود میں آگیا؟
یقیناً ایک عظیم الٰہ ہے، جو اس کائنات اور اس میں موجود ہر چیز کا خالق اور مدبر ہے، اور بلا شبہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے۔
ربِّ کائنات نے ہماری جانب رسول بھیجے اور ان پر آسمانی کتابیں (وحی) نازل کیں، جن میں آخری کتاب قرآنِ کریم ہے جو اللہ نے اپنے آخری رسول محمد ﷺ پر نازل کی، اور اپنی کتابوں اور رسولوں کے ذریعے :
⦁ (اللہ نے) ہمیں اپنی ذات، اپنی صفات اور اپنے حقوق سے آگاہ کیا اور یہ بھی واضح کیا کہ ہمارا اس پر کیا حق ہے۔
⦁ اور ہمیں بتایا کہ وہی رب ہے جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا، وہ زندہ ہے کبھی نہیں مرتا، اور تمام مخلوقات اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اسی کے زیر دست اور اس کے حکم کے تابع ہیں۔
⦁ اور ہمیں بتایا کہ اس کی صفات میں سے ایک صفت 'علم' ہے، اور اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے، اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے، زمین و آسمان میں کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔
اور رب سبحانہ وتعالى زندہ جاوید اور سب کو سنبھالنے والا ہے، صرف جس کی وجہ سے ہر مخلوق کی زندگی ہے، اور وہی قائم رکھنے والا ہے جس کے ذریعے ہر مخلوق کی زندگی قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿اللَّهُ لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ وَلا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ﴾ ''اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے، جسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند، اس کی ملکیت میں زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہیں۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کر سکے، وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کےعلم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وہ چاہے، اس کی کرسی کی وسعت نے زمین و آسمان کو گھیر رکھا ہے، اور ان دونوں کى حفاظت اللہ کے لئے کچھ بھارى نہیں ہے، وہ تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔''(سورۃ البقرۃ : 255)۔
⦁ اور اللہ نے ہمیں بتایا کہ وہى رب ہے جو صفاتِ کمال سے متصف ہے، اور اس نے ہمیں ایسے عقل اور حواس عطا فرمائے جو اس کی مخلوق کی عجائب اور قدرت کو سمجھ سکیں، اور یہ ادراک اس کی عظمت وقوت اور کمال صفات کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ اور اس نے ہماری فطرت میں یہ بات ودیعت کی ہے کہ وہ کامل ہے اور اس میں کسی نقص کا امکان نہیں۔
⦁ اور اس نے ہمیں یہ بتایا کہ رب اپنے آسامنوں پر ہے، نہ وہ دنیا کے اندر ہے اور نہ دنیا اس میں حلول کئے ہوئے ہے۔
⦁ اور ہمیں بتایا کہ ہم اللہ سبحانہ وتعالى کے سامنے سر تسلیم خم کریں کیوں کہ وہی ہمارا اور کائنات کا خالق و مدبر ہے۔
پس خالق عظمت والى صفات کے ساتھ متصف ہے اور وہ کبھی بھی کسی ضرورت یا کمی سے متصف نہیں ہو سکتا، رب نہ بھولتا ہے، نہ سوتا ہے، نہ کھاتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی بیوی یا اولاد ہو سکتی ہے۔ اور وہ تمام نصوص جو خالق کی عظمت کے خلاف ہوں، وہ اس صحیح وحی کا حصہ نہیں ہیں جو اس کے رسول علیہم السلام لائے تھے۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿قُلۡ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌ * ''آپ کہہ دیجیے کہ وه اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے.ٱللَّهُ ٱلصَّمَدُ * اللہ بے نیاز سب اس کے محتاج اور اپنے تمام صفات میں کمال کو پہونچا ہوا ہے.لَمۡ یَلِدۡ وَلَمۡ یُولَدۡ * نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا.وَلَمۡ یَكُن لَّهُۥ كُفُوًا أَحَدُۢ﴾ اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔''[الإخلاص: 1-4]۔
اگر آپ اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے پر ایمان رکھتے ہیں....تو کیا آپ نے کبھی یہ سوال کیا ہے کہ آپ کو پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے؟ اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے اور ہمارے وجود کا مقصد کیا ہے؟
کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ نے ہمیں پیدا کیا ہو اور ہمیں یوں ہی بے مقصد چھوڑ دیا ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام مخلوقات کو بغیر کسی مقصد یا غایت کے پیدا کیا ہو؟
حقیقت تو یہ ہے کہ عظمت والے رب اور خالق نے، جو ''اللہ'' ہے، ہمیں ہماری تخلیق کا مقصد بتایا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں۔ اور یہ بھی بتایا کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے، اور اس نے ہمیں بتایا کہ وہی عبادت کے لائق ہے اور اپنے رسولوں کے ذریعے ہمیں یہ بھی سمجھادیا کہ ہم کس طرح اس کی عبادت کریں اور ہم اس کے احکام کی پیروی اور اس کے ممنوعات سے بچ کراس کے قریب کیسے ہوں؟ اور اس نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ ہم اس کی رضا کیسے حاصل کریں؟ اور یہ بھی بتایا ہے کہ ہم اس کے عذاب سے بچیں۔ اور اس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ مرنے کے بعد ہمارا انجام کیا ہوگا؟۔
اور اللہ نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ یہ دنیاوی زندگی محض ایک امتحان ہے، اور حقیقی و کامل زندگی تو موت کے بعد آخرت میں ہوگی۔
اور اللہ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ جو شخص اللہ کی عبادت اس کے حکم کے مطابق کرے گا اور جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان سے باز رہے گا تو اس کے لیے دنیا میں پاکیزہ زندگی ہے اور اسے آخرت میں دائمی نعمتیں ملیں گی۔ اور جو اس کی نافرمانی اور اس کے ساتھ کفر کرے گا تو اس کے لیے دنیا میں بدبختی اور آخرت میں دائمی عذاب ہوگا۔
اور کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر انسان کو اس کے کیے ہوئے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ ملنا ضروری ہے، تو اگر ظالموں کو سزا نہ ملے اور نیک لوگوں کو انعام نہ ملے تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
ہمارے رب نے ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ اس کی رضا حاصل کرنے اور اس کے عذاب سے بچنے کا واحد راستہ دینِ اسلام میں داخل ہونا ہے، جو کہ اس کے سامنے مکمل طور پر سر تسلیم خم کرنا، صرف اسی کی عبادت کرنا، اسی کی اطاعت میں زندگی گزارنا اور خوش دلی کے ساتھ اس کے احکام کو قبول کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ وہ لوگوں سے اسلام کے علاوہ کوئی اور دین قبول نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(وَمَن يَبۡتَغِ غَيۡرَ ٱلۡإِسۡلَٰمِ دِينا فَلَن يُقۡبَلَ مِنۡهُ وَهُوَ فِي ٱلۡأٓخِرَةِ مِنَ ٱلۡخَٰسِرِينَ) ''جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا''۔[آل عمران:85]۔
اگر کوئی بھی شخص آج کل لوگوں کی عبادتوں پر غور کرے تو وہ پائے گا کہ؛ کوئی انسان کی عبادت کر رہا ہے، کوئی بت کی عبادت کر رہا ہے، کوئی ستارے کی عبادت کر رہا ہے اور اسی طرح لوگ مختلف چیزوں کی عبادت کر رہے ہیں۔ لیکن عقلمند انسان کو صرف رب العالمین کی عبادت کرنی چاہیے جو اپنی صفات میں کامل ہے۔ تو بھلا وہ اپنے جیسی یا اپنے سے کم تر مخلوق کی پرستش کیسے کر سکتا ہے؟ معبود نہ تو انسان ہو سکتا ہے، نہ بت، نہ درخت اور نہ ہی کوئی جانور!
تمام مذاہب جن کی لوگ آج پیروی کرتے ہیں- سوائے اسلام کے- اللہ کی نظر میں وہ قابلِ قبول نہیں ہیں۔ ان میں سے بعض مذاہب انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں، اور ان میں سے بعض مذاہب تو اللہ کى طرف سے تھے لیکن پھر لوگوں نے ان میں تبدیلیاں کردیں۔ لیکن اسلام رب العالمین کا دین ہے جس میں کسی قسم کی تغییر و تبدیلی نہیں ہوگی۔ اور اس دین کی کتاب قرآنِ کریم ہے، وہ اسی طرح محفوظ ہے جس طرح اللہ تعالی نے نازل کیا تھا اور آج بھی یہ قرآن مسلمانوں کے پاس اسی زبان میں موجود ہے جس میں یہ خاتم النبیین پر نازل ہوا۔
اسلام کی بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ تمام رسولوں پر ایمان لایا جائے جنھیں اللہ نے بھیجا ہے۔ اور تمام رسول انسان تھے جن کی اللہ نے معجزات اور نشانیوں کے ذریعہ سے مدد فرمائی اور انھیں اس مقصد کے لیے بھیجا کہ وہ لوگوں کو صرف اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی دعوت دیں۔رسولوں میں سب سے آخری رسول محمد ﷺ ہیں، اللہ نے آپ کو ایسی آخری الہی شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا جس نے ما قبل کے تمام رسولوں کی شریعتوں کو منسوخ کردیا، اور اللہ نے بڑی بڑی نشانیوں کے ذریعہ آپ کی تائید کی، جن میں سب سے بڑی نشانی قرآنِ کریم ہے، جو کہ رب العالمین کا کلام ہے، یہ انسانی تاریخ کی سب سے عظیم کتاب ہے، یہ کتاب اپنے مضمون، الفاظ، احکام اور ترتیب میں معجزہ ہے، اس کتاب میں ایسے حق کی ہدایت موجود ہے جو دنیا وآخرت کی سعادت سے بہرہ ور کرتی ہے، اور یہ کتاب عربی زبان میں نازل ہوئی۔
اور اس میں بے شمار عقلی اور علمی دلائل موجود ہیں جو بغیر کسی شک و شبہ کے یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ قرآن خالقِ کائنات کا کلام ہے اور یہ کسی انسان کا بنایا ہوا نہیں ہو سکتا۔
اسلام کی بنیادی اصولوں میں فرشتوں پر اور آخرت کے دن پر ایمان لانا شامل ہے، آخرت کے دن اللہ تعالی تمام لوگوں کو زندہ کرکے ان کى قبروں سے اٹھائے گا تاکہ انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دے، چنانچہ جس نے ایمان کی حالت میں نیک اعمال کیا ہوگا اس کے لیے جنت میں دائمی نعمت ہوگی، اور جس نے کفر کے ساتھ برے اعمال کیے ہوں گے اس کے لیے جہنم کا درد ناک عذاب ہوگا، اسلام کی بنیادی اصولوں میں یہ بھی کہ اللہ نے اچھی بری جو بھی تقدیر مقدر کی ہے اس پر ایمان لایا جائے۔
دینِ اسلام میں زندگی گزارنے کا ایک جامع طریقہ موجود ہے، جو فطرت اور عقل کے مطابق ہے، اور اسے صاف ستهرے نفوس بھی قبول کرتے ہیں، اسے عظیم خالق نے اپنی مخلوق کے لیے بنایا ہے، اور یہ دنیا و آخرت میں تمام لوگوں کے لیے بھلائی اور سعادت کا مذہب ہے۔ یہ ایک نسل کو دوسری نسل سے ممتاز نہیں کرتا ہے اور نہ کسی رنگ کو کسی رنگ پر فوقیت دیتا ہے' اس کی نظر میں تمام لوگ برابر ہیں، اور اسلام میں کسی کو بھی دوسرے پر ممتاز نہیں کیا جاتا مگر اس کے اچھے اعمال کے بہ قدر۔
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :(مَنۡ عَمِلَ صَٰلِحا مِّن ذَكَرٍ أَوۡ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤۡمِن فَلَنُحۡيِيَنَّهُۥ حَيَوٰة طَيِّبَة وَلَنَجۡزِيَنَّهُمۡ أَجۡرَهُم بِأَحۡسَنِ مَا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ) ''جو شخص نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت لیکن با ایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انھیں ضرور ضرور دیں گے۔''[النحل:97]۔
اللہ قرآنِ کریم میں اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اللہ کو رب اور معبود ماننا، اسلام کو دین تسلیم کرنا، اور محمد ﷺ کو رسول ماننا اور اسلام میں داخل ہونا ہر انسان پر لازم ہے، یہ ایسا معاملہ ہے جس میں انسان کو کوئی اختیار نہیں، قیامت کا دن حسباب اور جزا کا دن ہے، جو شخص سچا مومن ہوگا وہ عظیم کامیابی اور فلاح پائے گا اور جو کافر ہوگا اس کے لیے واضح خسارہ اور ناکامی ہوگی۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :(... وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ يُدۡخِلۡهُ جَنَّٰت تَجۡرِي مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَاۚ وَذَٰلِكَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِيمُ، ''جو اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں وه ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔''وَمَن يَعۡصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُۥ يُدۡخِلۡهُ نَارًا خَٰلِدا فِيهَا وَلَهُۥ عَذَاب مُّهِين) ''اور جو شخص اللہ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرره حدوں سے آگے نکلے، اسے وه جہنم میں ڈال دے گا جس میں وه ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔''[النساء:14-13]۔
جو شخص دین اسلام قبول کرنا چاہے، اسے چاہیے کہ اپنی زبان سے (أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدًا رسول الله) پڑھے، اس کے معنی ومفہوم کو سمجھتے ہوئے اور اس پر ایمان لاتے ہوئے، اس طرح وہ مسلمان ہو جائے گا، اس کے بعد دین کی باقی تعلیمات دھیرے دھیرے سیکھتا رہے، تاکہ اللہ نے اس پر جو کچھ واجب کیا ہے، اس پر عمل کر سکے۔