×
سوال: كيا عورت دورانِ حيض قرآن مجيد كى تلاوت كر سكتى ہے ؟

دوران ِحيض قرآن مجيد كى تلاوت

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوی:شیخ محمد صالح المنجد۔حفظہ اللہ۔

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ وتنسیق :عزیز الرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ

قراءة القرآن أثناء الحيض

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوى:الشيخ /محمد بن صالح المنجد-حفظه الله-

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي


۲۵۶۴: دورانِ حيض قرآن مجيد كى تلاوت

سوال: كيا عورت دورانِ حيض قرآن مجيد كى تلاوت كر سكتى ہے ؟

بتاریخ۱۱-۴-۲۰۰۷کو نشر کیا گیا

جواب

الحمد للہ:

اہل علم كے یہاں يہ مسئلہ اختلافى ہے:

جمہور فقہاء كرام حالتِ حیض ميں قرآن مجيد كى تلاوت كى حرمت كے قائل ہيں، اس ليے عورت حيض کی حالت ميں تلاوت نہیں كر سكتى ہے، اس سے صرف ذكر و اذكار اور دعاء مستثنى ہیں جس سے تلاوت كا قصد نہ ہو، مثلا :[بسم اللہ الرحمن الرحيم، انا للہ و انا اليہ راجعون، ربنا آتنا فى الدنيا حسنۃ و فى الآخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار الخ] اس كے علاوہ دوسرى دعائيں جو قرآن مجيد ميں وارد ہيں وہ عمومى ذكر ميں شامل ہيں.

فقہاء نے ممانعت كے كئى ايك امور اور دلائل بيان كيے ہيں:

۱۔يہ عورت جماع سے جنابت والے كے حكم ميں ہے كہ دونوں پر غسل فرض ہوتا ہے، اور حديث ميں ثابت ہے كہ:

على بن ابى طالب رضى اللہ تعالیٰ عنہ بيان كرتے ہيں كہ :)أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعلمهم القرآن وكان لا يحجزه عن القرآن إلا الجنابة)

''رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہیں قرآن مجيد كى تعليم ديا كرتے تھے، اور جنابت كے علاوہ كوئى اور چيز انہیں ايسا كرنے سے نہیں روكتى تھى ''۔سنن ابو داود ( 1 / 281 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 146 ) سنن نسائى ( 1 / 144 ) سنن ابن ماجہ ( 1 / 207 ) مسند احمد ( 1 / 84 ) صحيح ابن خزيمۃ ( 1 / 104 ) امام ترمذى نے اسے حسن صحيح كہا ہے، اور حافظ ابن حجر كہتے ہيں:

حق یہی ہے كہ يہ [حدیث] حسن كے درجہ كى ہے اور قابل حجت ہے.

۲۔ ابن عمر رضى اللہ تعالیٰ عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: (لا تقرأ الحائض ولا الجنب شيئاً من القرآن)

'' حائضہ عورت اور جنبى شخص قرآن ميں سے كچھ بھى نہ پڑھے ''۔

سنن ترمذى حديث نمبر ( 131 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 595 ) سنن دار قطنى ( 1 / 117 ) سنن البيھقى ( 1 / 89 ).

ليكن يہ حديث ضعيف ہے كيونكہ اسماعيل بن عياش حجازيوں سے روايت كرتے ہيں، اور ان كا حجازيوں سے روايت كرنا ضعيف ہے، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: حديث كا علم ركھنے والوں كے یہاں بالاتفاق يہ حديث ضعيف ہے. اھـ

ديكھيں: [مجموع فتاوى ابن تيميۃ ] ( 21 / 460 ) اور نصب الرايۃ ( 1 / 195 ) اور التلخيص الحبير ( 1 / 183 ).

اور بعض اہل علم حائضہ عورت كے ليے قرآن مجيد كى تلاوت جائز قرار ديتے ہيں، امام مالك كا مسلك یہی ہے، اور امام احمد سے بھى ايك روايت ہے جسے شيخ الاسلام ابن تيميہ نے اختيار كيا اور امام شوكانى نے راجح قرار ديا ہے، انہوں نے كئى ايك امور سےاستدلال كيا ہے:

۱۔ اصل جواز اور حلت ہے یہاں تک كہ اس كى ممانعت ميں كوئى دليل مل جائے، ليكن ايسى كوئى دليل نہیں ملتى ہے جو حائضہ عورت كو قرآن كى تلاوت سے منع كرتى ہو.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

حائضہ عورت كى تلاوت كى ممانعت ميں كوئى صريح اور صحيح نص نہیں ملتى ہے.

اور ان كا كہنا ہے:يہ تو معلوم ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى عورتوں كو حيض آتا تھا، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہیں قرآن كى تلاوت سے منع نہیں كيا ہے، جس طرح كہ انہیں ذكر و اذكار اور دعاء سے منع نہیں فرمايا ہے.

۲۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجيد كى تلاوت كا حكم ديا اور قرآن مجيد كى تلاوت كرنے والے كى تعريف كى اور اسے عظيم اجروثواب دينے كا وعدہ فرمايا ہے، چنانچہ اس سے منع اسى وقت كيا جا سكتا ہے جب كوئى دليل مل جائے، ليكن كوئى دليل ايسى نہیں ہے جو حائضہ عورت كو قرآن مجيد كى تلاوت سے منع كرتى ہو، جيسا كہ بيان بھى ہو چكا ہے.

۳۔ قرآن مجيد كى تلاوت منع كرنے ميں حائضہ عورت كا جنبى پر قياس كرنا صحيح نہیں ہے بلكہ يہ قياس مع الفارق ہے، كيونكہ جنبى شخص كے اختيار ميں ہے كہ وہ اس مانع كو غسل كر كے زائل كر لے، ليكن حائضہ عورت ايسا نہیں كر سكتى ہے، اور اسى طرح غالبا حيض كى مدت بھى لمبى ہوتى ہے، ليكن جنبى شخص كو نماز كا وقت ہونے پر غسل كرنے كا حكم ہے.

۴۔ حائضہ عورت كو قرآن مجيد كى تلاوت سے منع كرنے ميں اس كے ليے اجروثواب سے محرومى ہے، اور ہو سكتا ہے اس كى بنا پر وہ قرآن مجيد ميں سے كچھ بھول جائے، يا پھر اسے تعليم كے دوران قرآن مجيد پڑھنے كى ضرورت ہو.

مندرجہ بالا سطور سے حائضہ عورت كے ليے قرآن مجيد كى تلاوت كے جواز كے قائلين كے دلائل كى قوت ظاہر ہوتى ہے، اور اگر عورت احتياط كرتے ہوئے قرآن مجيد كى تلاوت صرف اس وقت كرے جب اسے بھول جانے كا خدشہ ہو تو اس نے محتاط عمل كيا ہے.

يہاں ايك تنبیہ كرنا ضرورى ہے كہ جو كچھ اوپر كى سطور ميں بيان ہوا ہے وہ حائضہ عورت كے ليے زبانى قرآن مجيد كى تلاوت كے متعلق ہے.

ليكن قرآن مجيد ديكھ كر تلاوت كرنے كا حكم اور ہے، اس ميں اہل علم كا راجح قول يہ ہے كہ قرآن مجيد سے تلاوت كرنا حرام ہے، كيونكہ اللہ تعالیٰ كا فرمان ہے:

﴿لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ﴾[الواقعة:79]

'' اسے پاكبازوں كے علاوہ اور كوئى نہیں چھوتا ہے''.

اور اس خط ميں بھى ذكر ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمرو بن حزم كو دے كر يمن كى طرف بھيجا تھا اس ميں ہے: (لا يمسُّ القرآن إلا طاهر)

''پاك شخص كے علاوہ قرآن مجيد كو كوئى اور نہ چھوئے ''

موطا امام مالك ( 1 / 199 ) سنن نسائى ( 8 / 57 ) ابن حبان حديث نمبر ( 793 ) سنن بيھقى ( 1 / 87 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

شہرت كے اعتبار سے علماء كى ايك جماعت نے اس حديث كو صحيح كہا ہے.

اور امام شافعى كہتے ہيں: ان كے یہاں ثابت ہے كہ يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خط ہے.

اور ابن عبد البر كہتے ہيں:

'' سيرت نگاروں اور اہل معرفت كے یہاں يہ خط مشہور ہے اپنى شہرت كى بنا پر يہ اسناد سے مستغنى ہے، كيونكہ لوگوں كا اس خط كو شرفِ قبوليت بخشناتواتر كے مشابہ ہے''. اھـ

اور شيخ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

''يہ صحيح ہے.''

ديكھيں: التلخيص الحبير ( 4 / 17 ) اور نصب الرايۃ ( 1 / 196 ) اور ارواء الغليل ( 1 / 158 )، حاشيۃ ابن عابدين ( 1 / 159 ) المجموع ( 1 / 356 ) كشاف القناع ( 1 / 147 ) المغنى ( 3 / 461 ) نيل الاوطار ( 1 / 226 ) مجموع الفتاوى ابن تيميۃ ( 21 / 460 ) الشرح الممتع للشيخ ابن عثيمين ( 1 / 291 (

اس ليے اگر حائضہ عورت قرآن مجيد ديكھ كر پڑھنا چاہے تو وہ اسے كسى منفصل چيز كے ساتھ پكڑے مثلا: كسى پاك صاف كپڑے يا دستانے كے ساتھ، يا قرآن كے

اوراق كسى لكڑى اور قلم وغيرہ كے ساتھ اٹھائے، قرآن كى جلد كو چھونے كا حكم بھى قرآن جيسا ہى ہے.

واللہ اعلم .

شيخ محمد صالح المنجد

(طالبِ دُعا:عزیزالرحمن ضیاء اللہazeez90@gmail.com: )