مرنے كے بعد ميت كو كيا چيز فائدہ ديتى ہے، اور كيا وہ زندہ كى بات سنتا ہے ؟
زمرے
مصادر
Full Description
- مرنے کے بعد میّت کو کیا چیز فائدہ دیتی ہے،اور کیا وہ زندہ کی بات سنتا ہے؟
- ما ذا ينفع الميّت بعد موته،وهل يسمع خطاب الأحياء؟
- :1 763 مرنے كے بعد ميت كو كيا چيز فائدہ ديتى ہے، اور كيا وہ زندہ كى بات سنتا ہے ؟
مرنے کے بعد میّت کو کیا چیز فائدہ دیتی ہے،اور کیا وہ زندہ کی بات سنتا ہے؟
[الأُردية –اُردو Urdu–]
فتوی :شعبۂ علمی اسلام سوال وجواب سائٹ۔
شیخ محمد صالح المنجد
ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ
مراجعہ وتنسیق:عزیزالرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ
ما ذا ينفع الميّت بعد موته،وهل يسمع خطاب الأحياء؟
فتوى: القسم العلمي بموقع الإسلام سؤال وجواب-
الشيخ محمد بن صالح المنجد
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي
:1 763 مرنے كے بعد ميت كو كيا چيز فائدہ ديتى ہے، اور كيا وہ زندہ كى بات سنتا ہے ؟
سوال: دو ہفتہ قبل ميرے والد صاحب فوت ہوئے ہيں، ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ جب ميں اور خاندان كے باقى افراد والد كى قبر پر جائيں تو كيا وہ ہمارى بات سننے كى طاقت ركھتے ہيں، اور نہیں ركھتے تو كيا كوئى طريقہ ايسا ہے كہ وہ ہمارى بات سن سكيں ؟
آپ سے گزارش ہے كہ جواب جلد ديں، ميں يہ اس ليے جاننا چاہتى ہوں كہ اس كا جواب ميرے غم و حزن ميں مددگار ہوگى۔
بتاریخ2007-03-09 کو نشر کیا گیا
جواب:
الحمد للہ:
اصل تو يہى ہے كہ مردے زندہ لوگوں كى بات چيت نہيں سنتے كيونكہ اللہ تعالىٰ كا فرمان ہے:
'' اور آپ قبروں والوں كو نہيں سنا سكتے ''۔
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالىٰ ہے:
'' يقينا آپ مردوں كو نہيں سناتے ''۔
اور معركۂ بدر كے بعد جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كفار كے قتل ہونے والوں كو گڑھے ميں پڑے ہوئے مخاطب كيا تو يہ ايك خاص حالت تھى جيسا كہ علماء كرام نے بيان كيا ہے، ( اس كے ليے آپ " الآيات البينات فى عدم سماع الاموات " كا مطالعہ كريں )۔
لگتا ہے كہ آپ كے اندر كى يہ خواہش كہ اپنے والد كو كچھ سنائيں اپنے والد سے صلہ رحمى اور تعلق قائم ركھنے كى كوشش اور اس كى جدائى كى بنا پر پيدا ہونے والے غم اور تكليف كو كم كرنے كى كوشش ہے جو آپ محسوس كرتى ہيں، سوال كرنے والى بہن آپ كو علم ہونا چاہيے كہ شريعت اسلاميہ نے بيان كر ديا ہے كہ ميت كو زندہ افراد سے كيا كچھ فائدہ حاصل ہو سكتا ہے، اور ان كى جانب سے اسے قبر ميں كيا كچھ پہنچ سكتا ہے.
اسى كو بيان كرتے ہوئے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: (إِذَا مَاتَ الإنْسَانُ انْقَطَعَ عنه عَمَلُهُ إِلا مِنْ ثَلاثةٍ إلا من صَدَقَة جَارِيَة أوَعِلْم يُنْتَفَعُ بِهِ أوَوَلَد صَالِح يَدْعُو لَهُ)
''جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس كے عمل منقطع ہو جاتے ہيں ليكن تين قسم كے اعمال باقى رہتے ہيں: صدقہ جاريہ، يا پھر نفع مند علم، يا نيك اور صالح اولاد جو اس كے ليے دعا كرتى رہے ''۔(صحيح مسلم حديث نمبر : 1631 )
آپ كے والد كو موت كے بعد اب جو چيز فائدہ دے سكتى ہے اور جس سے آپ كى تكليف اور الم ميں كمى اور آپ كو تسلى ہو سكتى ہے وہ يہ ہے كہ آپ اس كى بخشش و رحمت، اور جنت ميں داخل ہونے اور آگ سے نجات كى اچھى اچھى اور زيادہ سے زيادہ دعائيں كريں.
ميت كے بيٹے اور بيٹيوں كى طرف سے ميت كى مغفرت و بخشش كى دعا ميں بہت ہى عظيم امتازى حيثيت حاصل ہے جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
(إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ أَنَّى هَذَا فَيُقَالُ بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ)
''جنت ميں بندے كے درجات بلند كيے جاتے ہيں تو وہ كہتا ہے يہ كيسے، تو اسے جواب ديا جاتا ہے تيرى اولاد كى استغفار كى بنا پر ''۔
(سنن ابن ماجہ حديث نمبر : 3660 ،و صحيح الجامع حدیث نمبر: 1617)
اور اسى طرح ميت كى جانب سے صدقہ و خيرات كرنے سے بھى اسے اجروثواب حاصل ہوتا ہے، كيونكہ حضرت عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
(إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا ( أي ماتت ) وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ : نَعَمْ .(
''ميرى والدہ اچانك فوت ہوگئى ہے ميرا خيال ہے كہ اگر وہ بات چيت كرتى تو صدقہ ضرور كرتى، تو كيا اگر ميں اس كى جانب سے صدقہ كروں تو اسے اجروثواب حاصل ہوگا ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ''جى ہاں ''۔(صحيح بخارى مع الفتح البارى حديث نمبر : 1388)
اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ سعد بن عبادہ رضى اللہ تعالى عنہ كى والدہ فوت ہوئيں تو سعد رضى اللہ عنہ ان كے پاس نہ تھے، تو سعد رضى اللہ عنہ نے عرض كيا:
اے اللہ تعالىٰ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى والدہ فوت ہوئى تو ميں ان كے پاس نہيں تھا، اگر ميں اس كى جانب سے صدقہ كروں تو كيا يہ اسے كچھ فائدہ دےگا ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
( نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّ حَائِطِيَ الْمِخْرَافَ ( اسم لبستانه سمي بذلك لكثرة ثمره ) صَدَقَة ٌ عَلَيْهَا)
''جى ہاں''، تو سعد رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: ميں آپ كو گواہ بناتا ہوں كہ ميرا مخراف كھجوروں كا باغ اس كى جانب سے صدقہ ہے ''۔
صحيح بخارى ديكھيں: فتح البارى حديث نمبر : 2756 (
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
(إِنَّ أَبِي مَاتَ وَتَرَكَ مَالا وَلَمْ يُوصِ، فَهَلْ يُكَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ:؟ قَالَ :نَعَمْ)
ميرا والد فوت ہو گيا ہے اور اس نے مال چھوڑا ہے ليكن كوئى وصيت نہيں كى، اگر ميں ان كى جانب سے صدقہ كروں تو كيا وہ اس كے گناہوں كا كفارہ بنےگا؟
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ''جى ہاں''۔
اسے نسائى نے روايت كيا ہے.
سعد بن عبادہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا: ميرى والدہ فوت ہو گئى ہے تو كيا ميں ان كى جانب سے صدقہ كر سكتا ہوں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ''جى ہاں''۔
ميں نے سوال كيا: كون سا صدقہ افضل ہے ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: (سَقْيُ الْمَاءِ)
'' پانى كا كنواں كھدوانا ''
اسے نسائى نے روايت كيا ہے.
اور اسى طرح ميت كو پہنچنے والى اشياء ميں حج اور عمرہ بھى شامل ہے كہ ميت كى جانب سے حج يا عمرہ كيا جائے، ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ اس كى جانب سے حج يا عمرہ كرنے والے شخص نے اپنى جانب سے حج اور عمرہ كى ادائيگى كر لى ہو.
عبد اللہ بن بريدہ اپنے والد بريدہ رضى اللہ عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس بيٹھا ہوا تھا كہ ايك عورت آئى اور كہنے لگى: (إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي بِجَارِيَةٍ وَإِنَّهَا مَاتَتْ قَالَ: فَقَالَ: (وَجَبَ أَجْرُكِ وَرَدَّهَا عَلَيْكِ الْمِيرَاثُ)، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّهُ كَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ أَفَأَصُومُ عَنْهَا قَالَ صُومِي عَنْهَا قَالَتْ إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟، قَالَ: حُجِّي عَنْهَا)
ميرى والدہ فوت ہو چكى ہے اور ميں نے اس كى جانب سے لونڈى آزاد كى ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
'' تيرا اجر واجب ہوگيا اور اس نے تجھ پر ميراث لوٹا دى ''
تو وہ عورت كہنے لگے: اے اللہ تعالىٰ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اگر اس كے ذمہ مہينہ كے روزے ہوں تو كيا ميں اس كى جانب سے روزے ركھوں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
'' اس كى جانب سے روزے ركھو لو ''
وہ عورت كہنے لگى: اس نے كوئى حج نہيں كيا تو كيا ميں اس كى جانب سے حج كر لوں ؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: '' اس كى جانب سے حج كرو ''
(صحيح مسلم حديث نمبر : 1149)
اور اسى طرح يہ حديث ان كى جانب سے روزوں كى قضاء كرنے كى مشروعيت پر بھى دلالت كرتى ہے.
اور ميت كو نفع دينے والى اشياء ميں ميت كى مانى ہوئى نذر پورى كرنا بھى ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر كہنے لگى:
(إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ فَمَاتَتْ قَبْلَ أَنْ تَحُجَّ أَفَأَحُجَّ عَنْهَا؟ قَالَ: (نَعَمْ حُجِّي عَنْهَا ،أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ قَاضِيَتَهُ؟ قَالَتْ :نَعَمْ فَقَالَ :اقْضُوا اللَّهَ الَّذِي لَهُ فَإِنَّ اللَّهَ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ)
ميرى والدہ نے حج كرنے كى نذر مانى تھى ليكن حج كرنے سے قبل ہى فوت ہوگئى تو كيا ميں اس كى جانب سے حج كر سكتى ہوں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
'' اس كى جانب سے حج كرو، اچھا مجھے يہ بتاؤ كہ اگر تيرى والدہ كے ذمہ قرض ہوتا تو كيا تم اسے ادا كرتى ؟ ''
تو اس عورت نے جواب ديا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
''تو پھر اللہ تعالى كى ادائيگى كا زيادہ حق ہے ''
(صحيح بخارى، ديكھيں فتح البارى حديث نمبر ( 7315 (
اور اسى طرح ميت كو نفع دينے والى اشياء ميں اس كے كسى قريبى رشتہ دار كا قربانى كرتے وقت ميت كو اس ميں شريك كرنا بھى شامل ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى قربانى كرتے وقت كہا كرتے تھے:
) بسم اللہ اللھم تقبل من محمد و آل محمد )
''اللہ كے نام سے اے اللہ! محمد اور آل محمد سے قبول فرما''۔
(صحيح مسلم حديث نمبر : 1967 )
آل محمد ميں زندہ اور فوت شدگان سب شامل ہوتے ہيں.
رہا عورتوں كے قبرستان جا كر قبروں كى زيارت كرنے كا مسئلہ تو اس كى تفصيل سوال نمبر(۲۵۱)كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، اس كا مطالعہ كر ليں.
سوال كرنے والى بہن: آپ كو يہ علم ہونا چاہيے كہ آپ كا اپنے والد كے ليے اخلاص كے ساتھ دعاء ميں مشغول رہنا ان كے ليے بہت فائدہ مند ہوگا اور اس سوچ اور فكر سے بہتر ہے آپ اسے اپنى آواز كيسے سنا سكتى ہيں، اس ليے آپ اس چيز كى حرص ركھيں جو اسے فائدہ اور نفع دے، اور آپ خود بھى اور اپنے اہل و عيال اور گھر والوں كو بھى حرام ،بدعات اور خرافات مثلا: چاليسواں،برسى، اور فاتحہ خوانى كى مجالس اور قبروں پر مجلس قائم كرنے وغيرہ دوسرى بدعات و خرافات جس پر آج جاہل قسم كے لوگ ايك دوسرے كى تقليد كرتے ہوئے ديكھا ديكھى كرتے ہيں اجتناب كريں.
ميرى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے والد كو اپنى جوار رحمت ميں جگہ دے، اور اس كے اور باقى سب مسلمانوں فوت شدگان كےگناہ معاف كرے، يقينا اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے
اسلام سوال وجواب سائٹ
شیخ محمد صالح المنجد
(طالبِ دُعا:عزیزالرحمن ضیاء اللہ azeez90@gmail.com)