والدین کو ذکر( الہی) کا ثواب ہدیہ کرنا
زمرے
مصادر
Full Description
- والدین کو ذکر(الہی) کا ثواب ہدیہ کرنا
- إهداء ثواب الذِّكر إلى أبويه
- :46698 والدین کو ذکر(الہی) کا ثواب ہدیہ کرنا
والدین کو ذکر(الہی) کا ثواب ہدیہ کرنا
[الأُردية –اُردو Urdu–]
فتوی : شعبۂ علمی اسلام سوال وجواب سائٹ
ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ
مراجعہ وتنسیق:عزیزالرحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ
إهداء ثواب الذِّكر إلى أبويه
فتوى: القسم العلمي بموقع الإسلام سؤال وجواب
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
مراجعة وتنسيق:عزيزالرحمن ضياء الله السنابلي
:46698 والدین کو ذکر(الہی) کا ثواب ہدیہ کرنا
سوال:کیا یہ میرے لئے جائز ہے کہ میں 100 بار سبحان اللہ ، یا کوئی اور ورد کرنے کے بعد یہ دعا کروں کہ اس کا ثواب میرے والدین کو ملے؟ واضح رہے کہ میرے والد صاحب فوت ہوچکے ہیں، جبکہ میری والدہ ابھی زندہ ہیں۔
بتاریخ2014-10-23 کو نشر کیا گیا
جواب:
الحمد للہ:
علمائے کرام کے فوت شدگان کو ایصال ثواب کے بارے میں دو اقوال ہیں:
-1جو بھی نیک عمل میت کیلئے ہدیہ کیا جائے تو وہ میت کو پہنچ جاتا ہے، اس میں تلاوت قرآن، روزہ، نماز، وغیرہ دیگر عبادات شامل ہیں۔
-2 میت تک کسی بھی نیک عمل کا ثواب نہیں پہنچتا، صرف انہی اعمال کا ثواب پہنچ سکتا ہے، جن کے بارے میں دلیل موجود ہے، یہی موقف راجح ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ :
﴿وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ﴾ [النجم:39]
''اور انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی اس نے خود کوشش کی''۔[سورہ نجم:۳۹]
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلا مِنْ ثَلاثٍ : صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ)
''جب انسان مر جائے تو اسکے تین اعمال کے علاوہ سارے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں: صدقہ ٔجاریہ، علم جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں، یا نیک اولاد جو اسکے لئےدعاکرتی ہو''۔( صحیح مسلم،حدیث نمبر1631،بروایت ابوہریرہؓ)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ، آپکی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، اور آپ کی تین بیٹیاں رضی اللہ عنہن فوت ہوئیں، لیکن یہ کہیں بھی وارد نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کی طرف سے قرآن پڑھا ہو، یا خاص انکی طرف سے قربانی ،روزہ، یا نماز پڑھی ہو، ایسے ہی صحابہ کرام کی طرف سے بھی کوئی ایسا عمل منقول نہیں ہے، اور اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو صحابہ کرام ہم سے پہلے یہ کام کر چکے ہوتے۔
اور جن اعمال کے بارے میں میت تک ثواب پہنچنے کا استثناء دلائل میں موجود ہے ان میں حج، عمرہ، واجب روزہ، صدقہ، اور دعا شامل ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرمان باری تعالیٰ:
﴿وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ﴾ [النجم:39]
''اور انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی اس نے خود کوشش کی''۔[سورہ نجم:۳۹]
کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
''اسی آیت سے امام شافعی اور ان کے موقف کی تائید کرنے والوں نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ فوت شدگان تک تلاوت قرآن کریم کا ثواب نہیں پہنچتا؛ کیونکہ تلاوت انہوں نے خود نہیں کی، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کام کیلئے ترغیب نہیں دلائی، اور نہ ان کے لیے اسے اچھا قرار دیا، اور نہ ہی اس کام کیلئے واضح یا اشارۃلفظوں میں رہنمائی فرمائی ، آپ کے کسی صحابی سے بھی ایسی کوئی بات منقول نہیں ہے، اگر یہ کام خیر کا ہوتا تو وہ ہم سے پہلے کر گزرتے۔
عبادات کے معاملے میں شرعی نصوص کی پابندی کی جاتی ہے، اسی لئے عبادات کے متعلق قیاس آرائی نہیں کی جاسکتی، جبکہ دعا اور صدقہ کے بارے میں یہ ہے کہ (اس کا ثواب) میت کو پہنچتا ہے، اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح لفظوں میں بیان کیا ہے''۔ ) تفسير ابن كثير: 4/ 258(
اور اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ تمام نیک اعمال کا ثواب میت کو پہنچتا ہے تو میت کیلئے مفید ترین عبادت ''دعا''ہے، تو ہم ایسے اعمال جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دلائی ہے، انہیں چھوڑ کر ایسے اعمال کے پیچھے کیوں جاتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کئے، آپ کے کسی صحابی نے نہیں کئے!؟ حالانکہ ہر قسم کی بھلائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے راستے پر چلنے میں ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے تلاوتِ قران، اور صدقہ کا ثواب زندہ یا فوت شدہ ماں کو ہدیہ کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
''تلاوت قرآن کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، کہ تلاوت کا ثواب میت کو پہنچتا ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں دو قول ہیں، راجح یہی ہے کہ تلاوت کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا، کیونکہ اس بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے؛ ہمارے علم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل خانہ میں سے آپ کی زندگی میں فوت ہونے والی بیٹیوں کی طرف سے ایسا نہیں کیا، اور نہ ہی صحابہ کرام نے ایسا کیا، اس لئے بہتر یہ ہے کہ مومن ان امور میں مشغول نہ ہو، اور زندہ ہوں یا فوت شدہ کسی کیلئے تلاوت ، اور نماز مت پڑھے، ایسے ہی ان کی طرف سے نفل روزے مت رکھے؛ کیونکہ ان تمام امور کے بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
اور عبادات کے بارے میں اصول یہ ہے کہ جو اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے ثابت ہوچکا ہے اسی پر عمل کیا جائے ورنہ توقف اختیار کریں۔
جبکہ صدقہ کے بارے میں تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس سے زندہ ہوں یا مردہ سب کو فائدہ ہوتا ہے، اسی طرح دعا سے بھی ، مسلمانوں کا اس پر بھی اجماع ہے، زندہ کے بارے میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ وہ صدقہ سے مستفید ہوگاچاہے وہ اپنی طرف سے کرے یا کسی کی طرف سے، اسی طرح دعا کرنے سے بھی فائدہ ہوگا، چنانچہ جو شخص اپنے والدین کیلئے انکی زندگی میں دعا کرے تو دعا سے اسکے والدین کو فائدہ ہوگا، اسی طرح انکی طرف سے انکی زندگی میں صدقہ کرنا بھی مفید ہوگا، اسی طرح اگر والدین نہایت بوڑھے ہوچکے ہیں، یا اتنے بیمار ہیں کہ انکی شفایابی کی امید نہیں ہے، تو ایسی صورت میں انکی طرف سے حج کرنا بھی انکے لئے مفید ہوگا، کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے: ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
''فریضہ حج میرے والد پر انتہائی بڑھاپے کی حالت میں فرض ہوچکا ہے، لیکن وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے، تو کیا میں انکی طرف سے حج کر لو؟'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''انکی طرف سے تم حج کرو'' ۔
ایک اور واقعے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں ، حج نہیں کرسکتے ہیں ، اور نہ ہی سفر کی مشقت برداشت کر سکتے ہیں، تو کیا میں انکی طرف سے حج اور عمرہ کر سکتا ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرو''۔،
اس سے پتہ چلتا ہے کہ فوت شدگان، یا انتہائی بوڑھے عاجز افراد کی طرف سے حج کرنا جائز ہے۔
چنانچہ صدقہ ،دعا، میت کی طرف سے حج یا عمرہ، اور اسی طرح میت کے ذمہ واجب روزے بھی رکھے جاسکتے ہیں چاہے یہ واجب روزے نذر، کفارہ ، یا رمضان کے روزے ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عام ہے: ''جو شخص مر گیا اور اس کے ذمہ واجب روزے تھے اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا''اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے۔ اس معنی اور مفہوم کی دیگر احادیث بھی موجود ہیں۔
لیکن جس شخص نے رمضان کے روزے سفر، یابیماری کی وجہ سے چھوڑے، اور وہ ان کی قضا دینے سے پہلے ہی فوت ہوگیا تو اس کی طرف سے قضا نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی کھانا کھلایا جائے گا؛ کیونکہ وہ معذور ہے''۔انتہی
)مجموع فتاوى ومقالات شيح ابن باز (4/348:
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
''کیا کوئی آدمی مالی صدقہ کرتے ہوئے کسی دوسرے کو اجر میں شریک بنا سکتا ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
''یہ جائز ہے کہ ایک شخص مالی صدقہ اپنے والد، ماں، بھائی یا کسی بھی مسلمان کی طرف سے نیت کرتے ہوئے کرے، کیونکہ [اللہ کے یہاں]اجر بہت زیادہ ہے، چنانچہ صرف اللہ کیلئے پاک مال سے دئے جانے والے صدقہ کا اجر بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر دیا جاتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾[البقرة:261]
''جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے ۔ [سورہ بقرہ:261]
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک بکری کو اپنی اور اپنے تمام اہل خانہ کی طرف سے عید پر قربان کیا کرتے تھے''۔
(فتاوى شيخ ابن عثيمين:18/249)
مندرجہ بالا وضاحت کے بعد یہ عیاں ہوگیا ہے کہ آپ کی طرف سے والدین کو ذکر کا ثواب ہدیہ کرنا راجح موقف کے مطابق درست نہیں ہے، چاہے آپ کے والدین زندہ ہوں یا وفات پا گئے ہوں، آپ کے لئے نصیحت یہ ہے کہ آپ ان کے لئے کثرت سے دعا کریں، صدقہ کریں، کیونکہ خیر و بھلائی تو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی اتباع ہی میں ہے۔
واللہ اعلم
اسلام سوال وجواب
(طالبِ دُعا: azeez90@gmail.com)