حدیث(لا هامة ولا صفر ولا نوء ولا غول ) کا معنیٰ
اس مادہ کے ترجمے
زمرے
مصادر
Full Description
حدیث(لا هامة ولا صفر ولا نوء ولا غول ) کا معنیٰ
معنى حديث لا هامة ولا صفر ولا نوء ولا غول
« باللغة الأردية »
شیخ محمد صالح المنجد ۔حفظہ اللہ۔
ترجمہ: اسلام سوال وجواب ویب سائٹ
تنسیق: اسلام ہا ؤس ویب سائٹ
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
تنسيق: موقع islamhouse
2014 – 1436
حدیث( لا ھامۃ ،ولا صفر، ولا نوء، ولا غول ) کا معنیٰ
13930: حدیث( لا ھامۃ ،ولا صفر، ولا نوء، ولا غول ) کا معنیٰ
سوال:
میں نے ایک عجیب وغریب حدیث پڑھی ہے جس میں ہامہ،صفر ،نوء اورغول کی نفی کی گئ ہے ، تو ان عبارتوں کا کیا معنیٰ ہے ؟
الحمد للہ :
ابن مفلح حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مسند احمد اورصحیحین وغیرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
(نہ تو کوئی ہامہ ہے اور نہ صفر)۔’’یعنی الّو اور صفر کی نحوست کی کوئی اصل نہیں‘‘۔
اور مسلم وغیرہ کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں ( اورنہ ہی نوء اور غول ) ’’نہ ہی ستارے کی کوئی اصل ہے اور نہ غول (بھوت) کی کوئی حقیقت ہے‘‘۔
( الھامۃ )الھام کا مفرد ہے ، اہل جاھلیت یہ کہتے تھے کہ جوکوئی مرجاتا ہے اور اسے دفن کردیا جاتا ہے تواس کی قبر سے ایک ہامہ(ایک کیڑہ یا رات کا ایک پرندہ اُلّو)نکلتا ہے ، اور عرب کا یہ گمان تھا کہ میت کی ھڈیاں ہامہ (اُلّو یا پرندہ) بن کر اُڑتی رہتی ہیں ،نیز وہ یہ بھی کہتے تھے کہ :مقتول اپنی کھوپڑی سے الّو کی شکل میں نکل کریہ کہتا رہتا ہے کہ مجھے پلاؤ مجھے پلاؤ حتیٰ کہ اس کا انتقام لےلیا جاتاہے اور قاتل کوقتل کردیا جاتا ہے۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان :’’صفر کچھ بھی نہیں ہے‘‘کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ: اہل جاہلیت صفر کے مہینہ کی آمد کو منحوس سمجھتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لا صفر) یعنی صفر کی کچھ حقیقت نہیں ہے۔
اور ایک قول یہ ہے کہ : عرب یہ خیال کرتے تھے کہ پیٹ میں ایک قسم کا کیڑا ہوتا ہے جو جماع کے وقت اذیت دیتا ہے اور یہ متعدّی ہوتا ہے توشارع نے اسے باطل قرار دیا ۔
اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی ٰکہتے ہیں کہ: اہل جاہلیت صفر کے مہینے کو ایک سال حلال سمجھتے تھے اور دوسرے سال حرام قرار دید یتے تھے ۔
اور نوء:(ستارہ،نچھتر) انواء کی واحد ہے، اور یہ چاند کی اٹھارہ منزلیں ہیں،اور اسی کےمتعلق اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:﴿وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ﴾[سورة يس:39]
’’اور چاند کی ہم نے منزلیں مقررکر رکھی ہیں، یہاں تک کہ وه لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے‘‘۔
اور ہر تیرہ (۱۳) رات میں طلوع فجر کے ساتھ ایک ستارہ(نچھتر) مغرب میں ڈوبتا ہے، اور اس کے مقابلے میں اسی وقت ایک دوسرا ستارہ(نچھتر) مشرق میں نکلتا ہے، اور سال کے ختم ہونے کے ساتھ ان اٹھائیس ستاروں (نچھتروں) کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے۔عرب کے لوگ یہ گمان کرتے تھے کہ ایک ستارے(نچھتر) کے ڈوبنے اور دوسرے کے نکلنے کے ساتھ بارش ہوتی ہے، اسی لئے بارش کو اسی سے منسوب کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ فلاں نچھتر(ستارہ) کی وجہ سے ہم پر بارش نازل ہوئی ہے۔ اور اس کا نام (نوء) اس لئے رکھا گیا ہے کہ جب ایک ستارہ مغرب میں ڈوبتا ہے تو اسی وقت دوسرا ستارہ مشرق میں ظاہر ہوتا ہے، اور ناء ینوء نوءاً کا مطلب ہوتا ہے: نمودار ہونا، نکلنا، اٹھنا۔
اور ایک قول کے مطابق (نوء) کا مطلب ڈوبنے کے ہیں، او ر اس طرح وہ ایسے لفظوں میں سے ہے جو اضداد کہلاتے ہیں(عربی زبان میں اضداد اس لفظ کو کہتے ہیں جس کے دو مطلب ہوں اور دونوں ایک دوسرے کے ضد ہوں ،جیسا کہ نکلنا او ر ڈوبنا)۔
اور جو آدمی بار ش کو اللہ تعالیٰ کے فعل سے سمجھے اور اپنے قول: ہم پر فلاں نچھتر سے بارش ہوئی ہے کا مطلب یہ لے کہ فلاں نچھتر میں بارش ہوئی ہے: یعنی اللہ تعالیٰ نے اس وقت میں بارش ہونے کی عادت رکھی ہے، تو اس لفظ کے حرام یا مکروہ ہونے میں ہمارے یہاں اختلاف ہے۔
الغول : غیلان کا واحد ہے ،اور یہ جنوں اور شیطانوں کی جنس سےہے ، عرب کے لوگوں کا یہ گمان تھا کہ چٹیل میدان میں بھوت لوگوں کے سامنے ظاہرہوتا ہے، اور مختلف شکل وصورت بدلتا ہے اور انہیں راستے سے بھٹکا کر تباہ کردیتا ہے، تو شریعت نے اس کی نفی کی،اور اسے باطل قراردیا،ایک قول تو یہ ہے۔
اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ : اس میں بھوت اور اس کے وجود کی نفی نہیں کی گئی ہے، بلکہ اس میں اس عقیدے کی نفی ہے جوعرب رکھتے تھے کہ بھوت مختلف شکلوں میں آکرانہیں گمراہ کردیتا ہے ،تواس بنیاد پر (غول نہیں ہے) کا معنی یہ ہوگا کہ وہ کسی کو گمراہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ، اور اس معنیٰ کی شاھد دوسری حدیث ہے جو صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ (لاغول ولکن السعالی )،" غول (بھوت)کا کوئی اثر نہیں ہے بلکہ سعالی (چھلاوہ) ہے "، اور" سعالی"سے مراد جنوں کے جادوگر ہیں جنہیں تخیل اورتلبیس میں ملکہ حاصل ہوتاہے ۔ اور حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ بھوت کا کوئی اثر نہیں ہے لیکن جنوں میں جادوگر ہوتے ہیں جو لوگوں پر ان کے معاملات کو مشتبہ کردیتے ہیں اور انہیں مختلف خیالات دلاتے ہیں۔
اورخلال نے طاوس سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی ان کے ساتھ جارہا تھا تو ایک کوّے نے چلّایا تو اس آدمی نے کہا: خیر،خیر(اچھا ہو،بھلاہو،) تو طاوس نے اس سے کہا: اس (کوّے) کے پاس کون سی بھلائی ہے، اور کون سی بُرائی ہے؟ تم میرا ساتھ چھوڑدو۔ الآداب الشرعیۃ ( 3 / 369 - 370 ) ۔
اور ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
بعض لوگ اس بات کی طرف گئے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول : "بیمار اونٹوں کو تندرست اونٹوں کے پاس نہ لایا جائے"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: "کوئی بیماری بذات خود متعدی نہیں ہے"کے ذریعہ منسوخ ہے۔لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے،بلکہ یہ انہی چیزوں میں سے ہے جس کا ابھی ذکر ہوا ہے کہ جس سے روکا گیا ہے وہ ایسی قسم ہے جس کی اجازت نہیں ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان: " کوئی بیماری بذات خود متعدی نہیں ہے اور ماہ صفر منحوس نہیں ہے"۔ کے ذریعہ جس چیز کی نفی کی ہے وہ مشرکوں کے اس عقیدہ کی نفی ہے کہ وہ اسے اپنے شرک کے قیاس اوراپنے کفر کے قاعدہ پر ثابت ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان"بیمار کو تندرست کے پاس نہ لایا جائے" کے ذریعہ جس چیز کی نفی کی ہے اس کی دو تفسیریں ہیں:
(پہلی ):اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں آدمی کا نفس اس طرح کی چیزوں میں سے جسے اللہ تعالیٰ مقدّر کرتا ہے اس متعدی او ر چھوت سے متعلق نہ کردے، اور اس میں اس آدمی کو تشویش میں ڈالنا ہے جو بیمار کو تندرست کے پاس لے جاتا ہے اور اسے اس بات سے دوچار کرنا ہے کہ وہ متعدی اور چھوت میں یقین کربیٹھے،اس طرح دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض اور اختلاف نہیں ہے۔
(دوسری):اس سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیمار اونٹوں کو تندرست اونٹوں کے پاس لانا اس بات کا سبب بن سکتا ہے کہ اللہ تعالی ٰ اس کی وجہ سے اس میں مرض پیدا کردے، اسی لئے اس کا لانا (بیماری) کا سبب ہے، اور کبھی کبھار ایسا ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ اس کی تاثیر کو ایسے اسباب کے ذریعے پھیر دیتا ہے جو اس کی مخالفت کرتے ہیں،یا اسباب کی طاقت اسے روک دیتی ہے، اور یہ خالص توحید ہے، بخلاف اس اعتقاد کے جس پر مشرک لوگ قائم تھے۔
اور یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قیامت کے دن اپنے اس فرمان کے ذریعہ سفارشی کی نفی کردی ہے: ﴿لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ﴾
’’ جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اور شفاعت ‘‘۔(البقرہ:۲۵۴)
یہ آیت ان متواتر حدیثوں کی مخالفت نہیں کرتی ہے جو واضح طور سے شفاعت کے ثابت ہونے پر حجّت ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صرف اس سفارش کی نفی فرمائی ہے جسے مشرکین ثابت کرتے تھے، اور وہ ایسی سفارش ہے جس میں سفارش کرنے والا اُس آدمی کی اجازت کے بغیر سفارش کرتا ہے جس کے پاس سفارش کی جاتی ہے، چنانچہ اللہ اور اس کے پیغمبر نے جس سفارش کو ثابت کیا ہے وہ اللہ کی اجازت کے بعد ہوگی، جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے :
{ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ }
’’کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے‘‘۔(البقرہ:۲۵۵)۔
اور فرمان باری تعالیٰ ہے:{ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىٰ }
’’وه کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو ‘‘ ۔ (الانبیاء:۲۸)
اوراللہ سبحانہ وتعالی ٰ کا فرمان ہے : { وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ} .
’’اوراس کے پاس سفارش نفع نہیں دے گی مگر جسے اس کی اجازت دی جائے ‘‘ ۔ (سورہ سبا:۲۳)
(حاشیہ تھذيب سنن ابی داود :۱۰؍۲۸۹۔۲۹۱)۔
اور اللہ تعالیٰ ہی صحیح راہ کی توفیق دینے والا ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم.
اسلام سوال وجواب شیخ صالح المنجد