کیا والدین کی طرف دیکھنا عبادت ہے؟
زمرے
Full Description
کیا والدین کی طرف دیکھنا عبادت ہے؟
هل النّظرإلى الوالدين عبادة؟
(اُردو۔أردية-urdu)
تحریر:خالد بن سعود بلیھد۔حفظہ اللہ۔
ترجمہ: شفیق الرّحمن ضیاءاللہ مدنیؔ
ناشر: دفترتعاو ن برائے دعوت وتوعیۃ الجالیات،ربوہ،ریاض
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
کیاوالدین کی طرف دیکھنا عبادت ہے؟
خالد بن سعود بلیہد
سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،
والدین کی طرف دیکھنے کے فوائد کے بارے میں نبیﷺ کا فرمان ہے:
’’جو شخص بھی اپنے والدین کی طرف نظر رحمت سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے لئے ایک مقبول حج کا ثواب لکھ دیتا ہے‘‘۔
اور دوسری روایت میں ہے:’’جو بھی فرمانبردار شخص اپنے والدین کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر نظر کے بدلے مقبول حج کا ثواب لکھ دیتا ہے، لوگوں نے کہا: ’’اگروہ ہرروز سوبار دیکھے تو؟ فرمایا: ’’ہاں،اللہ بہت بڑا اور بہت پاکیزہ ہے‘‘۔
تو کیا مذکورہ حدیث صحیح ہے؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ:
تمام تعریفیں صرف اللہ کے لئے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا عظیم ترین نیکیوں ،اور عظیم ترین طاعات اور سب سے موکد واجبات میں سے ہے، اسی لئے اللہ رب العالمین نے اپنے حق اور والدین کے حقوق کو سوسے زائد آیت میں ملایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ﴾[لقمان:۱۴]’’ ہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر‘‘۔
اور ہر تصرّف،یا ذریعہ جوان دونوں(ماں باپ) کی بھلائی، مودّت،احترام اور ان کے ساتھ احسان کو ثابت کرے تو وہ ان کے ساتھ بھلائی کرنےکے معنیٰ میں داخل ہے، اور اس پر بھلائی کرنے کا ثواب مرتّب ہوگا، او ر اس کے بالمقابل کوئی بھی تصرّف یا وسیلہ ان کے ساتھ کسی بھی معاملے میں بدسلوکی کا سبب بنے تو وہ والدین کی نافرمانی میں داخل ہے اور اس پر نافرمانی کا گناہ مرتب ہوگا۔
رہی بات والدین کی طرف دیکھنا تو یہ عبادت نہیں ہے، اور شریعت میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو ان کی طرف بطور عبادت کی قصد سےدیکھنے پر دلالت کرتی ہے، بلکہ ان کی طرف دیکھنا اصل میں عادت کے طور پر ہے۔ اور نہ ہی نبیﷺ سے ثابت ہے کہ آپﷺ نے ان کی طرف دیکھنے کو عبادت سمجھا ہو، یا ان کی طرف دیکھنے پر کوئی خاص ثواب مرتّب کیا ہو، اور اس باب میں جتنی بھی باتیں نقل کی جاتی ہیں تو و ہ سب منکر وناپسندیدہ باتیں ہیں جن کی سنت میں کوئی اصل نہیں ہے اور نہ ہی ان کے ذریعہ عمل کرنا مشروع ہے۔
اور جہاں تک حدیث : (ما من رجل ينظر إلى والديه نظرة رحمة إلا كتب الله له بها حجة مقبولة مبرورة) ’’جو شخص بھی اپنے والدین کی طرف نظر رحمت سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے لئے ایک مقبول حج کا ثواب لکھ دیتا ہے‘‘۔
کی بات ہے تو اسے امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (شعب الایمان) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے روایت کیا ہے ،اور یہ حدیث منکر ہے ،کیونکہ نہشل بن سعید کی روایت سے ہے جن کو امام ابوداودطیالسی، اسحاق بن راہویہ رحمہمااللہ نے جھوٹ سے متصف کیا ہے،اور اس کی متن میں بھی نکارت ہے۔
اور اس حدیث کا دوسرا لفظ: ((ما من ولد بار ينظر إلى والديه نظرة رحمة إلا كتب الله له بكل نظرة حجة مبرورة قالوا : وإن نظر كل يوم مائة مرة قال نعم ، الله أكبر وأطيب) ’’جو بھی فرمانبردار شخص اپنے والدین کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر نظر کے بدلے مقبول حج کا ثواب لکھ دیتا ہے، لوگوں نے کہا: ’’اگروہ ہرروز سوبار دیکھے تو؟ فرمایا: ’’ہاں،اللہ بہت بڑا اور بہت پاکیزہ ہے‘‘۔
تو یہ حدیث موضوع یعنی من گھڑت ہے جو نبیﷺ کی طرف جھوٹے طور پرمنسوب کردی گئی ہے، کیونکہ محمد بن حمید کی روایت سے ہے جو متہم بالکذب ہے ، اور اس کے بارے میں اسحاق بن منصور رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ:
’’میں اللہ کے سامنے اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ جھوٹا ہے‘‘۔
اور امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ:
’’وہ جان بوجھ کر جھوٹ بولتا تھا‘‘۔
اور یہ معنیٰ بعض سلف سے وارد ہے لیکن یہ ان سے بطور اجتہاد صادر ہوا ہے اوراس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
اسی طرح اس باب میں جو یہ بیا ن کیا جاتا ہے کہ مصحف یا کعبہ یا عالِم شخص کی طرف دیکھنا عبادت ہے اس پرسنت سے کوئی صحیح دلیل نہیں ہےجس پر اعتماد کیا جائے۔ اور والدین کی طرف محض دیکھنےکے باب میں اصل یہی ہے کہ یہ عادات کے قبیل سے ہے، اور مجھے شریعت میں کسی بھی ایسی عبادت کا پتہ نہیں جو مجرّد کسی چیز کے دیکھنے پر مبنی ہو، البتہ آیات کونیہ میں تفکروتدبر کے ساتھ دیکھنے کی مشروعیت آئی ہوئی ہے،کیونکہ اس سے خالق پر ایمان مضبوط ہوتا ہے، اور یقین میں اضافہ ہوتا ہے ،اور توحید میں کمال پیدا ہوتا ہے۔
حاصل یہ کہ والدین کی طرف دیکھنا عبادت نہیں ہے،لیکن اگراس کے ذریعہ ان کی تکریم اور ان پر خوشی وسرور داخل کرنے کا ارادہ کیا جائے تو اس پر آدمی کو ثواب ملے گا، اصل عمل سے نہیں بلکہ اس اچھی نیت کے شامل ہونے سے۔
لہذا مسلمان شخص کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی بھی قول یا عمل میں عبادت کا اعتقاد رکھے، اور اس عمل کے ذریعہ متکلم فیہ حدیث کا سہارا لے کر،یا کسی عالِم کی اجتہاد، یا کسی رائے کو اچھا سمجھ کر تقرّب وثواب کا قصد کرے، کیونکہ عبادت کا باب صرف شرعی دلیلوں پر موقوف ہے، اس میں قیاس ونظر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اور دعاۃ اور واعظین کے لئے اس باب میں لوگوں کے لئےتسہیل وآسانی پیدا کرنا جائز نہیں ہے،اور نہ ہی اس باب میں منکر وغریب باتوں کا تذکرہ کرنا درست ہے، بلکہ ان کے لئے ایسی باتوں کو نشر کرنے سے پہلے تحقیق کرنا ضروری ہے۔
خالد بن سعود بلیھد
رکن سعودی علمی جمعیت برائے سنّت
binbulihed@gmail.com
الریاض:۱۱؍۱؍۱۴۳۳ھ