×
زیر نظر فتوى میں ماہ رجب میں چاندی کی انگوٹھی پہننے کے بارے میں شرعی حکم کوذکر کیا گیا ہے.

    ماہ رجب ميں چاندى كى انگوٹھى پہننا

    (لبس خواتيم الفضة في شهر رجب)

    (أردو-الأردية-urdu)

    فتوی

    محمد صالح المنجد حفظہ اللہ

    ناشر

    2009 - 1430

    ß

    لبس خواتيم الفضة في شهر رجب

    (باللغة الأردية)

    فتوى

    محمد صالح المنجد حفظه الله

    الناشر

    2009 - 1430

    بسم الله الرحمن الرحيم

    ماہ رجب ميں چاندى كى انگوٹھى پہننا

    همارے خاندان میں سب بہن بھائیوں کوچاندی کی انگوٹھیاں دی گئی ہیں انگوٹھی کی اندروالی طرف عربی کے نمبردرج ہیں اوریہ خاص کرصرف ماہ رجب میں تیارہوئی ہیں میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آیا اس طرح کی انگوٹھیوں کا اسلام سے کوئی تعلق ہے یا نہیں؟

    الحمد للہ:

    جس طرح عورت كے ليے انگوٹھى مستحب ہےاسى طرح مرد كے ليے بھی چاندى كى انگوٹھى مستحب ہے.

    انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

    " نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خط لكھا يا لكھنا چاہا تو آپ سے عرض كيا گيا: وہ صرف اسى خط كو پڑھتے ہيں جس پر مہر ثبت كى گئى ہو، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چاندى كى انگوٹھى بنوائى جس ميں محمد رسول اللہ نقش كيا گيا تھا، گويا كہ ميں آپ كے ہاتھ پر اس كى سفيدى ديكھ رہا ہوں "

    صحيح بخارى حديث نمبر ( 65 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2092 ).

    امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

    " خطابى كہتے ہيں: شادى شدہ وغيرہ عورت كے ليے چاندى كى انگوٹھى پہننا مباح ہے جس طرح اس كے ليے سونے كى انگوٹھى جائز ہے، اس ميں كوئى اختلاف نہيں، اور نہ ہى كوئى كراہت ہے، اور بغير كسى اختلاف كے عورت كے ليے چاندى كى انگوٹھى مكروہ ہے كيونكہ يہ مردوں كا شعار ہے.

    وہ كہتے ہيں: اگر وہ سونے كى انگوٹھى نہ پائے تو اسے زعفران وغيرہ سے زرد كر لے، ان كا يہ قول باطل ہے، اور صحيح يہى ہے كہ اس ميں كوئى كراہت نہيں.

    پھر كہتے ہيں: مرد كے ليے چاندى كى انگوٹھى پہننا جائز ہے چاہے وہ كوئى ذمہ داراور حكمران ہو يا كوئى دوسرا ,اس پر اتفاق ہے، اور شام كے علماء سے جو كراہت منقول ہے كہ حكمران كے علاوہ پہننا مكروہ ہے، ان كا يہ قول نصوص اور اجماع سلف كى بنا پر شاذ اور مردود ہے، اس ميں عبدرى وغيرہ نے اجماع نقل كيا ہے " انتہى

    ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 340 ).

    اسى طرح انگوٹھى پر لكھنا اور نقش كرانا بھى مباح ہے، ليكن اسے ماہ رجب كے ساتھ خاص كرنے كى كوئى دليل نہيں، جو كوئى بھى ماہ رجب ميں اس اعتقاد كے ساتھ انگوٹھى پہنتا ہے كہ اس ميں اللہ كا قرب ہے، يا پھر وہ اس ماہ ميں انگوٹھى پہننے كى فضيلت سمجھتا ہے تو اس نے بدعت اور برا كام كيا.

    انگوٹھى پر ايسى اشياء لكھانے سے پرہيز كرنا چاہيے جس سے يہ گمان ہو كہ يہ كوئى فائدہ ديتا ہے، يا پھر نظر بد اور جن و غيرہ سے بچاتى ہے.

    حاصل يہ ہوا كہ اصل ميں انگوٹھى پہننے اور اس پر نقش كرانے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس ميں ممانعت يہ ہے كہ اس سے اللہ كا قرب حاصل كرنا يا اسے كسى معين وقت ميں پہننا يا اس سے تبرك حاصل كرنا يا اسے تعويذ بنانا ممنوع ہے.

    واللہ اعلم.