مسجد نبوی کی زیارت کے احکام
اس مادہ کے ترجمے
زمرے
مصادر
Full Description
مسجد نبوی کی زیارت کے احکام
﴿ أحكام زيارة المسجد النبوي ﴾
[ أردية- اردو-URDU]
فضیلۃ الشیخ/یوسف بن عبد اللہ احمد
ترجمہ: شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنیؔ
ناشر:کلمات ویب سائٹ۔ دار الوطن
http://www.kalemat.org
1435-2014
﴿أحكام زيارة المسجد النبوي ﴾
« باللغة الأردية »
يوسف بن عبد الله الأحمد
ترجمة: شفيق الرحمن ضياء الله المدني
ناشر: موقع كلمات ويب- مدار الوطن
http://www.kalemat.org
2014 - 1435
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر قسم کی تعریف صرف اللہ کے لئے ہے، اور درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد ،ان کے خاندان، ان کے اصحاب، اور قیامت تک ان کی نیکی کے ساتھ اتباع وپیروی کرنے والوں پر۔
حمدو صلاۃ کے بعد:
بے شک مسجد نبوی کی زیارت اور اس میں نماز ادا کرنے کے احکام اکثر لوگوں پر مخفی ہوتے ہیں، اور بہت سارے لوگ مدینہ منوّرہ میں قیام کے دوران بہت سارے شرعی مخالفات میں واقع ہو جاتے ہیں، اسی لئے اس رسالہ میں عام فہم اور آسان اسلوب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ سے ثابت شدہ احکام کو بیان کرنے اور مخالفات پر تنبیہ کرنے کی کاوش کی گئی ہے۔
۔آپ کی خدمت میں یہ احکام درج ذیل ہیں:
۱۔مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز ادا کرنے کی غرض سے کسی بھی وقت سفر کرنا مشروع ہے، جیسا کہ صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (صلاة في مسجدي هذا خير من ألف صلاة فيما سواه إلا المسجد الحرام)[متفق عليه]
’’میری اس مسجد میں ایک نماز کا (ثواب) دوسری مساجد کے ایک ہزار نماز کے (ثواب)سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے‘‘۔ (متفق علیہ)
۲۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز کی ادائیگی کی وجہ سے سفر کرنا اس کا حج سے کوئی تعلق نہیں ہے،اس لئے کہ حج سے قبل یا اس کے بعد مسجد نبوی کی زیارت حج کی سنتوں یا کمالِ حج میں سے نہیں ہے۔
۳۔جب مسلمان شخص مسجد نبوی میں پہنچے تو اس کے لئے وہی چیز کرنا مستحب ہے جو ہر مسجد کے اندر داخل ہوتے وقت مستحب ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ داخل ہوتے وقت اپنےدائیں پیر کو بڑھائےاور کہے: (بسم الله والصلاة والسلام على رسول الله، اللهم افتح لي أبواب رحمتك)
’’اللہ کے نام کے ساتھ اور درو و سلام ہو اللہ کے رسول پر، اے اللہ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے‘‘۔
(وأعوذ بالله العظيم ، وبوجهه الكريم، وسلطانه القديم من الشيطان الرجيم).
’’ میں عظمت والے اللہ، اس کے معزّز چہرے اور اس کی قدیم سلطنت کی پناہ میں آتا ہوں شیطان مردود سے‘‘۔
۴۔پھر تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھے۔
۵۔اور نماز کے بعد اس کے لئے مستحب ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اور ان کے دونوں ساتھیوں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی قبر پر تشریف لے جائے اور ان پر سلام بھیجے، چنانچہ وہ کہے:
السلام علیک یا رسول اللہ ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، السلام علیک یا ابا بکر، السلام علیک یا عمر،(اے اللہ کے رسول! آپ پر اللہ کی رحمت وبرکت نازل ہو،اے ابوبکرؓ !آپ پر سلامتی ہو،اے عمر ؓ !آپ پر سلامتی ہو) پھر وہاں سے ہٹ جائے اور پلٹے نہ، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سفر سے واپس آکر کیا کرتے تھے، اور اگر وہ ان کے حق میں دعا میں کچھ اضافہ کردے اور اس کا التزام نہ کرے تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
۶۔اور جو شخص مدینہ میں ہے اس کے لئے مستحب ہے کہ اپنے گھر میں وضو بنا ئے اور پھر مسجد قبا ء جا کر دو رکعت نماز ادا کرے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (من تطهر في بيته ثم أتى مسجد قباء فصلي فيه ركعتين كان له كأجرعمرة) [حديث صحيح أخرجه أحمد والنسائي وغيرهما]
’’جس نے اپنے گھر میں وضو کیا پھر مسجد قباء آیا اور اس میں دورکعت نماز ادا کیا تو اس کے لئے عمرہ کے برابر اجر ہے‘‘ (یہ حدیث صحیح ہے، اسے امام احمد اورنسائی وغیرہ نے روایت کیا ہے‘‘۔
۷۔اور مستحب ہے کہ مقبرہ بقیع اور شہداء احد کی قبروں کی زیارت کرے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی زیارت کیا کرتے تھے اور ان کے لئے دعائیں کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمومی فرمان کی وجہ سے بھی : (كنت نهيتكم عن زيارة القبور ألا فزوروها) [أخرجه مسلم]
’’میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کردیا تھا توتم اب اس کی زیارت کیا کرو‘‘ (اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو قبروں کی زیارت کے وقت اس بات کی تعلیم دیتے تھے کہ وہ کہیں: (السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون، نسأل الله لنا ولكم العافية) [أخرجه مسلم]
’’اے مومنوں اور مسلمانوں کی بستیوں والو! تم پر سلامتی ہو، بلا شبہ ہم اگر اللہ نے چاہا تو تم سے ملنے والے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے عافیت کا سوال کرتے ہیں ‘‘ (اسے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے)۔
۸۔اور اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ بے شک قبروں پر قبے وغیرہ بنانا، یا قبروں پر مساجد تعمیر کرنا، یا مسجدوں میں مُردوں کو دفن کرنا ان عظیم محرّمات میں سے ہے جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ساری نصوص میں ڈرایا ہے ،ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
ا۔عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیماری میں جس سےدوبارہ نہیں اُٹھے فرمایا: (لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبورأنبيائهم مساجد[متفق عليه]
’’اللہ کی یہودیوں اور نصاریٰ پر لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا‘‘ (متفق علیہ)۔
ب:اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے کہ ام حبیہ وام سلمہ رضی اللہ عنہما نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گرجا گھر کا تذکرہ کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا اور اس میں تصاویر لگی ہوئی تھی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: (إن أولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجداً، وصوّروا فيه تلك الصّور، أولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة) [أخرجه مسلم]
’’بےشک وہ ایسے لوگ ہیں جب ان میں کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا دیتے، اور اس میں اس کی تصویروں کو آویزاں کردیتے ،وہ لوگ بروز قیامت اللہ کے نزدیک سب سے برے لوگ ہوں گے‘‘۔(اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)
ج۔ اور جابر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: (نهى رسول الله صلي الله عليه وسلم أن يجصص القبر، وأن يقعد عليه، وأن يبنى عليه) [أخرجه مسلم]
’’رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو چونا گچ کرنے، اس پر بیٹھنے اور اس پر تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘(اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔
د۔ اور ابو مرثد رضی اللہ عنہ کہتے کہ بے شک رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (لا تجلسوا القبور، ولا تصلوا إليها) [أخرجه مسلم]
’’قبروں پر نہ بیٹھو، اور نہ ہی اُن کی طرف( رُخ کرکے) نماز پڑھو‘‘۔(اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔
رہی بات مسجد نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کا موجود ہونا ،تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں نہیں دفن کئے گئے تھے، بلکہ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے کمرہ میں مدفون ہوئے تھے، اور ان کا کمرہ مسجد نبوی سے باہر تھا، اور معاملہ اسی طرح مستمر رہا یہاں تک کہ مدینہ نبویہ سے صحابہ کا زمانہ ختم ہوگیا، اور پھر ولید بن عبد الملک کی خلافت میں مسجد نبوی کی توسیع ہوئی اور مسجد میں کمرہ کو داخل کردیا گیا (دیکھیں مجموع فتاوی ابن تیمیہ ۷/323).
اور واجب تو یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی طرف سے توسیع نہ کی جاتی ، بلکہ دوسری تینوں جانب سے کی جاتی، تو اس طرح قبر مسجد سے باہر ہی رہتا، جیسا کہ عمر وعثمان رضی اللہ عنہما کی مسجد (نبوی) کی توسیع میں ہوا تھا۔
غلطیاں وتنبیہات:
۱۔بہت سارے لوگ قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی غرض سے مدینہ منوّرہ کا سفر کرتے ہیں،جب کہ یہ عمل جائز نہیں ہے،بلکہ مشروع یہ ہے کہ مسلمان اپنے اس سفر سے مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کا ارادہ کرے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ( لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: المسجد الحرام، ومسجدي هذا، والمسجد الأقصى)[متفق عليه]
’’تین مسجدوں کے علاوہ (ثواب کی نیت سے) سفر کرنا جائز نہیں ہے: مسجد حرام، اور میری مسجد (نبوی) اور مسجد اقصی‘‘۔(متفق علیہ)
۲۔قبرنبوی صلی اللہ علیہ وسلم، ان کے دونوں ساتھیوں اور بقیع وغیرہ قبور کی زیارت صرف مَردوں کے ساتھ خاص ہے، رہی بات عورتوں کی تو ان کے لئے کسی بھی قبرکی زیارت مشروع نہیں ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ( لعن الله زوّارات القبور) [حديث صحيح,أخرجه أحمد والترمذي وابن ماجه]
’’قبروں کی بہت زیادہ زیارت کرنے والیوں پر اللہ کی لعنت ہو‘‘ (یہ حدیث صحیح ہے، اسے احمد ،ترمذی اور ابن ماجہ رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے)۔
۳۔کسی شخص کے لئے منبر (نبوی ) کا،اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے دونوں ساتھیوں کا کمرہ چھونا ،اسے بوسہ دینا، یا اس کا چکر لگا نا جائز نہیں ، کیونکہ یہ سب ناپسندیدہ بدعت ہیں۔
۴۔کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا ان کے علاوہ سے کسی حاجت کو پورا کرنے، یا کسی پریشانی کو دور کرنے، یا کسی بیمار کو شفادینے، یا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے آخرت میں شفاعت وغیرہ کا سوال کرے، کیونکہ ان ساری چیزوں کو صرف اللہ سے طلب کیا جاتا ہے، اور انہیں مُردوں سے مانگنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔
۵۔بعض مبتدعانہ اعمال میں سے بعض زائرین کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس تیز آواز کرنا اور لمبا قیام کرنا ہے، اور آپ کی قبر کے پاس دعا کا تلاش کرنا، اور بسا اوقات آپ کی قبر کی جانب رُخ کرکے دونوں ہاتھو ں کو بلند کرکے دُعا کرنا ہے، اسی طرح بعض لوگ دور سے ہی قبرنبوی کا استقبال کرتے ہیں، اور سلام یا دُعا کے لئے اپنے دونوں ہونٹوں کو ہلاتے ہیں، یا ہر نماز کے بعد ، یا جب بھی مسجد میں داخل ہوتے ہیں یا اس سے نکلتے ہیں تو قبر نبوی کی زیارت کرتے ہیں،یہ سب سلف صالحین صحابہ و نیکو کار تابعین کے عمل کے خلاف ہیں، بلکہ یہ ایجاد کردہ بدعات میں سے ہیں۔
۶۔مدینہ نبویہ کی مشروع زیارت (کی جگہوں)کا بیان ہوچکا ہے، اور جو ان(جگہوں) کے علاوہ ہیں وہ غیرمشروع ہیں جیسے،مساجد سبعہ، مسجد قبلتین وغیرہ، اسی طرح ان لوگوں کے ساتھ جانا جو مزورین(زیارت کروانے) کہلاتے ہیں تاکہ ان سے ادعیہ سیکھ سکیں۔(درست نہیں ہے)۔
ضمیمہ:
چند اہم باتیں جن کا جاننا بندہ کے لئے ضروری ہے، ان کو میں درج ذیل مسائل کے تحت مختصرا بیان کر رہا ہوں:
پہلا: بے شک مسلمان شخص پر سب سے پہلا واجب اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کرنا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾
’’ میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں‘‘ ۔ اور اللہ نے فرمایا:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ ﴿٣٦﴾
’’ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو‘‘۔
اور ارشاد باری ہے:
وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ
’’ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو‘‘۔
اور جس نے عبادت کی قسموں میں سے کسی بھی قسم کو غیراللہ کے لئے پھیرا تو وہ شرک میں واقع ہوگیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا ﴿٤٨﴾
’’ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناه اور بہتان باندھا‘‘۔
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ﴿١٣﴾
’’بے شک شرک بڑا بھاری ظُلم ہے‘‘۔
اور شرک کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: شرک اکبر ،اور یہ ملّت سے خارج کردینے والی ہے، اسکی مثال درج ذیل ہیں:
۱۔ غیر اللہ سے دُعا کرنا، جیسے کسی شخص کا کسی نبی یا نیک آدمی کے پاس جاکر یوں کہنا: میری شفارش کریں، یا میرے بیمار کو شفا دیں وغیرہ۔
۲۔غیر اللہ کے لئے ذبح کرنا، جیسے جن وشیاطین یا انبیاء وصالحین کے لئے ان کی قبروں کے پاس ذبح کرنا۔
۳۔قبروں کا طوراف کرنا
۴۔اللہ کی نازل کردہ (حُکم) کے خلاف فیصلہ کرنا(جس کی تفصیل کتب عقیدہ میں موجود ہے)
۵۔ گردن پر،یا ہاتھ میں،یا بچّوں پر، یا گھر ، یا گاڑی میں تعویذ کا لٹکانا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ یہ نفع لاتا ہے اور نقصان کو دور کرتا ہے۔
۶۔ جادو کرنا
دوسری قسم: شرک اصغر ہے،یہ بہت بڑا گناہ ہے لیکن اسلام سے خارج نہیں کرتا، اور اسکی اقسام میں سے درج ذیل ہیں:
۱۔ریا کاری،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر، فسئل عنه ؟ فقال : الرياء) [أخرجه أحمد وإسناده حسن]
’’میں تمہارے بارے میں شرک اصغرکا سب سے زیادہ خوف رکھتا ہوں ،آپ سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا ؟ تو فرمایا: یہ ریا (دکھلاوا)ہے‘‘( اسے احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے)۔
۲۔غیر اللہ کی قسم کھانا، جیسے: نبی،زندگی، باپ، شرف وغیرہ کی قسم، چنانچہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( من حلف بغير الله فقد كفرأو أشرك)[حديث صحيح،أخرجه أحمد وأبوداود وغيرهما]
’’جس نے غیراللہ کی قسم کھائی اس نے کفریا شرک کیا‘‘۔(یہ حدیث صحیح ہے، اسے احمد،ابوداود وغیرہم نے روایت کیا ہے)۔
۳۔ماشاء اللہ وشاء فلان (جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں) کہنا، کیونکہ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( لا تقولوا ما شاء الله وشاء فلان، ولكن قولوا: ما شاء الله ثم شاء فلان) [أخرجه أبوداود وغيره بسند صحيح].
’’یہ نہ کہو کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے، لیکن کہو: جو اللہ چاہے اور پھر فلاں چاہے‘‘۔(اسے ابوداود وغیرہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)۔
وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن رجلاً قال للنبي صلي الله عليه وسلم-: (ما شاء الله وشئتَ. فقال:"أجعلتني لله نداً، بل ما شاء الله وحده"[حديث صحيح، أخرجه أحمد وابن ماجة وغيرهما].
’’اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ’’جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں‘‘، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تونے مجھے اللہ کا شریک بنادیا،بلکہ کہوجو صرف اللہ چاہے‘‘۔ (یہ حدیث صحیح ہے ،اسے احمد اور ابن ماجہ وغیرہم نے روایت کیا ہے)۔
دوسرا: بے شک عبادت کے درست ہونے کے لئے تین شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:
۱۔اسلام، کیونکہ غیرمسلم یہودی، نصرانی وغیرہ لوگوں سے عبادت درست نہیں ہوگی۔
۲۔اخلاص، پس جس نے عبادت میں چھوٹا یا بڑا شرک کیا جیسے ریاء تو اس کی عبادت باطل ہے۔
۳۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت: پس جس نے چھٹی نماز کا اضافہ کیا،یا ظہر میں پانچ رکعت ادا کیا،تو اس کا یہ عمل بدعت ہے اور اس کے ذریعہ وہ گنہگار ہوگا، اور اس کی نماز باطل ہوگی، گرچہ وہ مخلص ہو۔ یا کہے کہ: میرا قصد اس سے اجر کی زیادتی ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو ردّ) [أخرجه مسلم]
’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے امر(دین) کے خلاف ہے تو وہ مردود ہے(یعنی اسی پر لوٹا دیا جائے گا)‘‘(اسے مسلم نے روایت کیا ہے)۔
تیسرا: چند شرعی ممنوعات ہیں جو موجودہ وقت میں مسلمانوں کے مابین منتشر ہیں لہذا میرے بھائی اس سے متنبہ رہو،اور اس میں واقع ہونے سے بچو، اور ان ممنوعات میں سے چند یہ ہیں:
۱۔نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرنے سے بچو، کیونکہ یہ اسلام میں بڑے گناہوں میں سے ہے۔
۲۔مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز چھوڑنے سے ڈرو اور خاص طور پر فجر وعصرکو۔
۳۔جادوگروں اور شعبدہ بازوں کے پاس جانے سے بچو۔
۴۔غیر مشروع تبرّک سے بچو، جیسے انبیاء وصالحین کی قبروں ، یا کعبہ کے پردوں اور اس کی عمارتوں سے تبرّک حاصل کرنا۔
۵۔شراب نوشی اور نشہ آور چیزوں کے استعمال سے بچو۔
۶۔مال حرام کے لینے سے بچو، جیسے سود، چوری، تجارت میں دھوکہ ،اور کم تولنا۔
۷۔زنا کے جُرم اور اس کے مقدّمات سے دور رہو جیسےعورتوں کی طرف نظرکرنااور ان کے ساتھ ملنا جُلنا۔
۸۔والدین کی نافرمانی اور قطع رحمی سے بچو۔
۹۔زبان کے پھسلنے جیسے جھوٹ ،غیبت اور چغلی سے دور رہو۔
۱۰۔اے مسلمان عورت! غیرمحرم مردوں کے سامنے اپنی پردہ کے کسی بھی حصہ کو کھولنے سے بچتی رہ، جیسے چہرہ، بال، دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں،اسی طرح عباءۃ (چغہ) کے پہننے کو نہ ترک کر، کیونکہ تجھ پر تمام بدن کو ڈھاکنے والے حجاب کا پہننا ضروری ہے۔
یہ آخری پیغام تھا، اور تمام طرح کی تعریف صرف اللہ کے لئے ہے، اور درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد ،ان کے خاندان ،اور ان کے تمام اصحاب پر۔