×
شیخ محمد صالح ۔ حفظہ اللہ۔ سے پوچھا گیا كہ : ميں نے بہت سارے علماء اور دعاۃ سے مختلف مقامات پر وہابيت كے متعلق بات كرتے سنا ہے اور انہوں نے اس كا دفاع كيا ہے، اور اس بات کی وضاحت کی ہےكہ يہ كسى تحريك يا فرقے كا نام نہيں، بلکہ یہ صرف سلف صالحین کی فہم کے مطابق کتاب وسنت کی اتباع اور شرک کے تمام مظاہر سے دوری اختیار کرنے کی تجدید ہے، اور ان ميں سے كسى ايك - خاص كر مشہور علماء - نے يہ نہيں كہا كہ ايك فرقہ ايسا بھى ہے جسے ‘‘وہابیت’’ كے نام سے موسوم كيا جاتا ہے، اور يہ گمراہ فرقہ تھا جو شمالى افريقہ ميں پروان چڑھا، جس كى بنا پر معاملہ ایک دوسرے سے گڈ مڈ ہوجاتا ہے، اور اسى وجہ سے جزيرہ عرب سے باہر كے بعض علماءجزيرہ عرب ميں پروان چڑھنے والی جماعت(وہابیت)كا انكار كرتے ہيں،اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ (سلفی وہابیت) اسی ( اباضی وہابیت) کی شاخ ہے کیونکہ یہ نام شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت سے جُڑا ہوا ہے۔اس لئے کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس گمراہ فرقہ کے بارے میں کچھ تحریر کیا جاتا،اور اس گمراہ فرقے اور شيخ محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ كى دعوت کے درمیان اصول واعتقاد کے اعتبار سے فرق بیان کیا جاتا، اور میرے سوال کا ایک خاص سبب ہے، ليكن ميں اسے ذكر كر كے سوال لمبا نہيں كرنا چاہتا، اميد ہے کہ مقصود واضح ہوگیا ہوگا۔اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے ذريعہ اسلام كو فائدہ دے، اور آپ كو دنیا وآخرت میں اسلام سے فائدہ حاصل ہو، اور ميرا اور آپ كا خاتمہ بالخير ہو اور انجام بہتر ہو. ۔ فتوی مذکور میں اسی کا جواب پیش ہےـ

    سلفی‘‘ وہابیت’’ اور اباضی ‘‘وہابیت’’ میں فرق

    الفروقات بين "الوهابية" الإباضية وبين"الوهابية" السَّلَفية

    [ أردو - اردو - urdu ]

    محمد صالح المنجد

    ترجمہ:اسلام سوال وجواب ویب سائٹ

    تنسیق: اسلام ہا ؤس ویب سائٹ

    ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
    تنسيق: موقع islamhouse

    2014 - 1435

    سلفی‘‘ وہابیت’’ اور اباضی ‘‘وہابیت’’ میں فرق

    سوال : ميں نے بہت سارے علماء اور دعاۃ سے مختلف مقامات پر وہابيت كے متعلق بات كرتے سنا ہے اور انہوں نے اس كا دفاع كيا ہے، اور اس بات کی وضاحت کی ہےكہ يہ كسى تحريك يا فرقے كا نام نہيں، بلکہ یہ صرف سلف صالحین کی فہم کے مطابق کتاب وسنت کی اتباع اور شرک کے تمام مظاہر سے دوری اختیار کرنے کی تجدید ہے ،اور ان ميں سے كسى ايك - خاص كر مشہور علماء - نے يہ نہيں كہا كہ ايك فرقہ ايسا بھى ہے جسے ‘‘وہابیت’’ كے نام سے موسوم كيا جاتا ہے، اور يہ گمراہ فرقہ تھا جو شمالى افريقہ ميں پروان چڑھا، جس كى بنا پر معاملہ ایک دوسرے سے گڈ مڈ ہوجاتا ہے، اور اسى وجہ سے جزيرہ عرب سے باہر كے بعض علماءجزيرہ عرب ميں پروان چڑھنے والی جماعت(وہابیت)كا انكار كرتے ہيں،اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ (سلفی وہابیت) اسی ( اباضی وہابیت) کی شاخ ہے کیونکہ یہ نام شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت سے جُڑا ہوا ہے۔اس لئے کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس گمراہ فرقہ کے بارے میں کچھ تحریر کیا جاتا ،اور اس گمراہ فرقے اور شيخ محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ كى دعوت کے درمیان اصول واعتقاد کے اعتبار سے فرق بیان کیا جاتا ، اور میرے سوال کاایک خاص سبب ہے، ليكن ميں اسے ذكر كر كے سوال لمبا نہيں كرنا چاہتا، اميد ہے کہ مقصود واضح ہوگیا ہوگا۔اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے ذريعہ اسلام كو فائدہ دے، اور آپ كو دنیا وآخرت میں اسلام سے فائدہ حاصل ہو، اور ميرا اور آپ كا خاتمہ بالخير ہو اور انجام بہتر ہو.

    جواب:

    الحمدللہ :

    اول: سب سے پہلےہم آپ كى حق پر غيرت ، اور لوگوں كى ہدايت چاہنے کیلئے شكريہ ادا كرتے ہيں، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى حفاظت فرمائے.

    ہم آپ کو یہ بتانا چاہتے ہيں كہ بہت سارےمحققین وریسرچروں نے ‘‘خارجى اباضى وہابيت ’’ اور شيخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ كى سُنّی سلفی دعوت کے درمیان فرق بيان کیا ہے، اور دونوں جماعتوں کے مابین متعدداعتبار سے کافی فرق کی وجہ سے انسان نما شیاطین کی دسیسہ کاری اکثر لوگوں پر مخفی نہ رہی، اور وہ فرق مندرجہ ذیل ہیں:

    ۱۔ دونوںشخصیتیں جُدا ہیں ، اباضیت: عبد الوھاب بن رستم كى طرف منسوب ہے، اور دوسری: شيخ محمد بن عبد الوہاب کی طرف، حالانكہ اصل ميں يہ نسبت صحيح نہيں ہے كيونكہ شيخ كا نام تو محمد ہے.

    2 -منہج کے اعتبار سے بھی دونوں الگ ہيں: اباضى ايك بدعتى فرقہ ہے، جو نہ نصوص وحی کی تعظیم کرتا ہے اور نہ صحابہ وتابعین کی فہم کے مطابق اسےسمجھتا ہے،جبکہ دوسرا گروہ: اہل سنت والجماعت کے منہج کے مطابق کتاب اللہ اور صحیح سنت پر عمل کرتا ہے۔

    3-دونوں کے اعتقاد بھی مختلف ہيں: پہلا گروہ خارجيوں كا ہے، اور دوسرا سلفىوں کا ہے.

    ۴۔وقت اور زمانے کے اعتبار سےبھی الگ ہيں: پہلا گروہ دوسرى صدى كے آخر یا تيسرى صدى كے شروع ميں وجود میں آیا، اوردوسرا گروہ :بارہویں صدى ہجرى كے آخر ميں ظاہر ہواہے !.

    اسکے ساتھ ساتھ طلباء وعلماء حضرات اس (گروہ) کی حقیقت کے بارے میں ان لوگوں کی رہنمائی کرتے رہے ہیں جنہیں گمراہ مولویوں اور برے داعیوں نے تلبیس میں ڈال رکھا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ العبود -حفظہ اللہ- فرماتے ہیں کہ:

    وہابیت: ایک ایسا فرقہ ہے جو دوسری صدی ہجری میں شمالی افریقہ میں عبد الوہاب بن رستم کے ہاتھوں پھیلا، اسے عبدالوہاب کی طرف نسبت کرکے ‘‘وہابیت’’کہا جاتا ہے، اور اسکے باپ رستم کی طرف نسبت کرکے ‘‘رستمی’’ بھی کہا جاتا ہے۔یہ خارجی وہابی فرقہ سے الگ ہےجو اباضی فرقہ میں سے تھا، اورجس کو اسکے مؤسس عبداللہ بن وہب راسبی کی طرف منسوب کرکے‘‘وہبیہ’’ کہاجاتا ہے،

    اور چونکہ اہل مغرب اہل سنت والجماعت سے تعلق ركھتے تھے اس ليے انہوں نے اس رستمى وہابى فرقہ سے دشمنى و وعداوت کرنا شروع کردی ، كيونكہ اس کے عقائد اہل سنت و الجماعت كے خلاف تھے، بلكہ مغرب کے علمائے قدیم جو شیخ محمد بن عبدالوہاب کی پیدائش سے کئی سالوں پہلے وفات پا چکے تھے انہوں نے اس فرقہ کو کافر قرادیدیا۔

    اور جب اللہ تعالى نے محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ كو ظاہر كيا تو اس وقت اہل سنت و الجماعت كا عقيدہ غربت اختيار كر چكا تھا، آپ رحمہ اللہ نے كتاب و سنت كى روشنى ميں اصلاحی دعوت دینا شروع كى تو توحيد كے دشمنوں ، قبر پرستوں ، خود غرض ،لالچى افراد اور خواہشات كے پجاریوں كو يہ دعوت راس نہ آئی اور انہوں نے اس " وہابيت " كى نسبت کو دسیسہ کاری وچالبازی سے محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ كى سلفى دعوت اور اس دعوت كے معاونين و انصار كى طرف کر دى، اوراس پر وہابیت کا اطلاق کرنے لگے تاکہ اس (دعوت سلفیت) سے لوگ متنفر ہوجائیں،اور اللہ کی راہ سے رک جائیں، اور انہیں اس وہم میں ڈال دیا گیا کہ توحيد كى یہ دعوت بدعت پر مبنی ہے اور يہ خارجيوں كا مذہب ہے.

    اور عثمانى سیاستدانوں نے بھى اس (باطل) اطلاق کو شيخ محمد كى دعوت ِتوحيد پر پھيلانا شروع كر ديا، اور لوگوں نے قبرپرستوں، صوفيوں ،بدعتیوں ، جاہلوں اور عوام الناس سے يہ چيز حاصل كر لى، اورجب انہيں اس دعوتِ توحید سےجو اللہ کا بندوں پر حق ہے اپنی سلطنت کے بارے میں خطرہ محسوس ہوا، تو اسے تنقید کا ہدف بنا لیا -خاص طور پر حرمین شریفین کے علاقہ کا اس دعوت کے انصار ومعاونین کے ماتحت اس دعوت توحید میں داخل ہونے سے-اوراس پرشیخ محمد کے والد کے نام گرامی‘‘ عبدالوہاب’’ میں موافقت اس دعوت کی حقیقت سے نا بلد لوگوں کو (جھانسے) ڈالنے میں کافی مددگار ثابت ہوئی –

    اس سلسلے ميں قيمتى بحث ملاحظہ فرمائیں: تصحيح خطا تاريخى حول الوھابيۃ "یعنی تاریخ وہابیت حقائق کے آئنے میں’’ تحریر:ڈاكٹر محمد سعد الشويعر، طبع سوم، سن 1419ھ، الجامعۃ الاسلاميۃ، فہرست شاہ فہد قومی لائبریری.(

    اور " المراد الشرعى بالجماعۃ و اثر تحقيقہ فى اثبات الھويۃ الاسلاميۃ صفحہ ( 18).

    اور ڈاكٹر محمد بن سعد الشويعر -حفظہ اللہ- كہتے ہيں:

    ‘‘وہابیت مغرب (مراکش) میں دوسری صدی ہجری سے اس بات سے پہچانی گئی کہ یہ ایک خارجی اباضی فرقہ ہے جو عبد الوہاب بن عبد الرحمن بن رستم خارجی اباضی كى طرف منسوب ہے ، جس نے ایک روایت کے مطابق ۱۹۷ھ اور دوسری روایت کے مطابق ۲۰۵ھ میں شمالی افریقہ کے اندر وفات پائی۔اہل مغرب اس فرقہ اور اس کی آگ سے جل اٹھے، اور علمائے اندلس اور مغرب كے مالكيہ نے اس كےخلاف كفر كا فتوى جارى كردیا،چنانچہ مستشرقین اور یوروپی ممالک کے مفکرین نے اس وقت جن مسلمان ممالك پر قبضہ جما ركھا تھا وہاں نقب زنى كى اور انہيں اس فرقہ میں جس کی شمالی افریقہ اور علمائے اندلس کے ساتھ سیاہ تاریخ تھی اپنی مراد حاصل ہو گئی۔چنانچہ مسلمانوں کے مابین نفرت وفساد اور بغض وکینہ پھیلانے کی غرض سے انہوں نے عیوب سے تیارشدہ لباس کو اس سلفی واصلاحی دعوت کو پہنا نے کا ارادہ کرلیا،اور وہ دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کی کامیابی یا ناکامی میں اپنی کامیابی سمجھتے تھے، میں اس سلسلہ میں چند باتیں اپنی کتاب‘‘وہابيت كے بارے میں ایک تاریخی غلط فہمی کی تصحیح’’ میں بیان کرچکا ہوں، جو کہ در اصل مغرب اقصیٰ کے بعض علماء کے ساتھ ایک مناظرہ تھا۔

    ديكھيں: مجلۃ البحوث الاسلاميۃ ( 60 / 256 ) ميں مقالہ بعنوان " سليمان بن عبد الوہاب الشيخ المفترى عليہ "

    اور ان كا يہ بھى كہنا ہے کہ :

    " شيخ محمد بن عبد الوہاب ـ رحمہ اللہ- كى دعوت اعتقاد ، محتوى ، جگہ ،منہج اور شرعى دليل سے اشتشہاد كے اعتبار سے وہابى رستمى فرقہ سے الگ ہے؛ كيونكہ رستمى خارجى اباضى فرقہ ہے جو اہل سنت والجماعت کے اعتقاد سے اختلاف رکھتی ہے جیسا کہ شمالی افریقہ اور اندلس میں مالکی علماء کے ہاں اندلس پر انگریز کے تسلط اور آٹھ سو برس تک اسلامی دور حکومت سے قبل معروف تھی،جب کہ شيخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ اپنی دعوت میں اہل سنت والجماعت كے مذہب سے نہیں نکلتے، اور اپنی ہر رائے کتاب وسنت کی صحیح دلیل سے ثابت کرتے ہیں جو سلف صالحین کی فہم سے مترشح ہوتی ہےجيسا كہ واضح نص اور قياس ان كى سب كتابوں اور رسائل ميں موجود ہے"

    ديكھيں: مجلۃ البحوث الاسلاميۃ ( 60 / 264 ).

    (اسی طرح) آپ ‘‘ وہابيت كے بارے میں ایک تاریخی غلط فہمی کی تصحیح ’’ نامی مقالہ درج ذيل لنك پر ديكھ سكتے ہيں:

    " http://www.wahabih.com/3.htm "

    دوم:

    اباضيوں كے عقائد ہم سوال نمبر ( 11529 ) كے جواب ميں بيان كر چكے ہيں.

    اور سوال نمبر ( 40147 ) كے جواب ميں ان كے پيچھے نماز کے عدم ِ جواز کا تذکرہ کرچکے ہیں.

    اور سوال نمبر ( 66052 ) كے جواب ميں ہم انکی شہادت کے عدم قبولیت اور اہل سنت سے انکی شادی وبیاہ کے عدم جواز کو بیان کرچکے ہیں، اسلئے آپ ان سب کا ضرور مطالعہ فرمائیں.

    اسی طرح وہابی کی حقیقت اور ان کی دعوت کے بارے میں جاننے کیلئے سوال نمبر ( 10867 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

    اور سلفی علماء کا اعتراف نہ کرنے والوں او ر انہیں وہابی سے موسوم کرنے والوں کیلئےنصیحت دیکھنے کے سلسلے میں سوال نمبر ( 12203 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

    اور شيخ جيلانىؒ اور ابن عبد الوہابؒ كى حقيقت جاننے كے لئے سوال نمبر ( 12932 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

    اور كيا محمد بن عبد الوہاب ؒنے خلافت عثمانيہ كے خلاف خروج كيا تھا، اور كيا وہ اس كے سقوط كا سبب تھے ؟اسكى تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 9243 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

    اور‘‘ محمد بن عبد الوہابؒ ايك بدنام مصلح ’’ کے بارے میں سوال نمبر ( 36616 ) کے جواب کا مطالعہ كريں.

    واللہ اعلم.

    الاسلام سوال و جواب