مسلمانوں کےلیے بیت المقدس کی کیااھمیت ہےاورکیااس میں یھودیوں کا بھی کوئ حق ہے ؟
اس مادہ کے ترجمے
زمرے
مصادر
Full Description
مسلمانوں کےلیے بیت المقدس کی کیااھمیت ہےاورکیااس میں یھودیوں کا بھی کوئ حق ہے ؟
أهمية القدس بالنسبة للمسلمين وهل لليهود حقٌّ فيها
[ أردو - اردو - urdu ]
الشیخ محمد صالح المنجد
ترجمہ: اسلام سوال وجواب ویب سائٹ
تنسیق: اسلام ہا ؤس ویب سائٹ
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
تنسيق: موقع islamhouse
2013 - 1434
مسلمانوں کےلیے بیت المقدس کی کیااھمیت ہےاورکیااس میں یھودیوں کا بھی کوئ حق ہے ؟
میں مسلمان ہونے کے ناطے مسلسل یہ سنتارہا ہوں کہ قدس شہر ہمارے لیے بہت ہی اہم ہے لیکن اس کا سبب کیا ہے ؟
مجھےاس کا توعلم ہے کہ نبی اللہ یعقوب علیہ السلام نے مسجد اقصی اسی شہر میں بنائ ، اورہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصی میں سب انبیاء کی نمازمیں امامت کرائ جو کہ سب انبیاء کی رسالت اوروحی الہی کی وحدت پردلیل ہے ۔
توکیا اس کے علاوہ کوئ اوربھی ایسا سبب پایاجاتا ہے جواس شہرکی اہمیت واضح کرے ، یا کہ اس سبب سےکہ ہم یھودیوں کے ساتھ معاملات نہ کریں ؟
مجھے توایسا لگتا ہے کہ اس شہرمیں ہم سے زیادہ حصہ یھودیوں کا ہے ۔
الحمد للہ
اول :
بیت المقدس کی اھمیت :
اللہ تعالی آپ پررحم فرماۓ آپ کے علم میں ہونا چاہيۓ کہ بیت المقدس کے فضائل بہت زيادہ ہیں جس کےبارہ میں آیات و احادیث بہت ہیں :
اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید میں اسے مبارک قرار دیا ہے : فرمان باری تعالی ہے :
{ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ، اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں } الاسراء ( 1 ) ۔
اورقدس ہی وہ شہراورعلاقہ ہے جومسجد کے اردگرد ہے تواس لحاظ سےوہ بابرکت ہوا ۔
اسی علاقہ کواللہ تعالی نےموسی علیہ السلام کی زبان سے مقدس کا وصف دیا ، فرمان باری تعالی ہے :
{ اے میری قوم اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ تعالی نے تمہارے نام لکھ دی ہے } المائدۃ ( 21 ) ۔
اس سرزمین میں مسجد اقصی پائي جاتی ہے جہاں ایک نماز اڑھائ صد ( 250 ) نمازوں کےبرابر ہے ۔
ابوذررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگي میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ کیا مسجدنبوی افضل ہے یا کہ بیت المقدس ؟ تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : میری مسجد میں وہاں ( بیت المقدس ) کی چارنمازوں سے افضل اوروہ نمازی بھی بہت ہی اچھا ہے ، ایک وقت آۓ گا کہ کس آدمی کے پاس اس کے گھوڑے کی رسی جتنی زمین کا ٹکڑا ہوگا جہاں سے اسے بیت المقدس نظرآۓ گا ، تویہ اس کے لیے ساری دنیا سے بہتر ہوگي ۔ مستدرک الحاکم ( 4 / 509 ) امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا اورامام ذھبی اورعلامہ البانی رحمہما اللہ تعالی نے اس میں ان کی موافقت کی ہے دیکھیں سلسلۃ احادیث الصحیحۃ حدیث نمبر ( 2902 ) ۔
مسجد نبوی میں ایک نماز ہزارنماز کےبرابر ہے تواس طرح مسجداقصی میں ایک نمازاڑھائ سو ( 250 ) نمازکے برابر ہوئ ۔
مسجداقصی میں ایک نمازپانچ سونمازکے برابروالی لوگوں میں مشہور حدیث ضعیف ہے ۔ دیکھیں تمام المنۃ للشیخ البانی رحمہ اللہ تعالی ص ( 292 ) ۔
اوروہ ایسی پاکيزہ سرزمین ہے جہاں پرکانا دجال بھی داخل نہیں ہوسکتا، جیسا کہ حدیث میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( وہ دجال حرم اوربیت المقدس کے علاوہ باقی ساری زمین میں گھومےگا ) مسنداحمد حدیث نمبر ( 19665 ) ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے ( 2 / 327 ) صحیح ابن حبان ( 7 / 102 ) ۔
عیسی علیہ السلام دجال کواسی علاقے کے قریب قتل کریں گے جیسا کہ حدیث نبوی میں فرمان نبوی ہے :
نواس بن سمعان رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( عیسی بن مریم علیہ السلام دجال کو باب لد میں قتل کریں گے ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 2937 ) ۔
لد بیت المقدس کے قریب ایک جگہ کا نام ہے ۔
- یہ وہی جگہ ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومعراج کے لیے مسجد حرام سے مسجد اقصی لیجايا گيا جس کا ذکر اللہ تعالی نے اس آیت میں کچھ اس طرح فرمایا ہے :
{ پاک ہے وہ اللہ تعالی جواپنے بندے کورات ہی رات میں مسجدحرام سے مسجد اقصی تک لے گيا } الاسراء ( 1 )
- یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں ہے :
براء رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف نمازپڑھی ۔۔۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 41 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 525 ) ۔
- معروف ومعلوم ہےکہ وہ جگہ محبط وحی اورانبیاء کرام کا وطن ہے ۔
- بیت المقدس ان مساجدمیں سے ہے جن کی طرف سفرکرنا جائزہے :
ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تین مساجدکے علاوہ کسی اورکی طرف سفرنہیں کیا جاسکتا ، مسجد حرام ، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، اورمسجداقصی ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1132 )
اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی روایت کی ہے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 827 ) ۔
ایک لمبی حدیث میں جسے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ نے راویت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مسجد میں سب انبیاء علیہم السلام کی ایک نمازمیں امامت کرائ ، حدیث کے الفاظا کچھ اس طرح ہیں :
( فحانت الصلاۃ فاممتھم ) نمازکا وقت آیا تومیں نے ان کی امامت کرائ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 172 ) ۔
تواس لیے ان تین مساجد کے علاوہ زمین کے کسی بھی علاقہ کی طرف عبادت کی غرض سے سفرکرنا جائزنہيں ہے ۔
دوم :
یعقوب علیہ السلام کا مسجد اقصی کے تمعیرکرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اب یھودی مسلمانوں سے مسجداقصی کے زیادہ حق دار ہیں حالانکہ یعقوب علیہ السلام موحد اورتوحید پرتھے اوریھودی مشرک ہیں تویہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یھودی مشرک اس میں کچھ بھی حق رکھیں ۔
اس کا معنی یہ نہیں کہ ان کے باپ یعقوب علیہ السلام نے مسجد اقصی بنائ تواب یہ ان کی ہوگئ ، بلکہ انہوں نے توان کے لیے یہ مسجد اس لیے بنائ کہ اس میں موحد اوراہل توحید نمازپڑھیں اوراللہ تعالی کی عبادت کریں اگرچہ وہ ان کی اولاد کے علاوہ کوئ اورہی کیوں نہ ہوں ، اورمشرکوں کواس سے دورکیا جاۓ چاہے وہ ان کے اولاد میں سے کیوں نہ ہوں ۔
اس لیے کہ انبیاء کی دعوت نسلی نہیں بلکہ تقوی پرمشتمل ہوتی ہے ۔
سوم :
اورآپ کا یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سابقہ انبیاء کی نما زمیں امامت کرائ یہ وحدت الہی اور وحدت رسالت کی پختہ دلیل ہے ۔
تویہ بالکل صحیح ہے اس لیے کہ سب انبیاء کا دین اورعقید ایک ہی ہے کیونکہ ان سب کے دین کا منبع اورمصدر ایک وحی ہے جس سے سب انبیاء نے اپنی دینی تشنگی دورکی ۔
اوران کا عقیدہ بھی ایک ہی عقیدہ توحیدہے جو کہ اس کی طرف دعوت دیتا ہے کہ اللہ تعالی وحدہ لاشریک اور صرف وہ ہی عبادت کے لائق ہے ، اگرچہ انبیاء کی شریعتوں میں تفاصیل کے اعتبار سے اختلاف ہے ، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا :
( میں عیسی بن مریم علیہ السلام کا دنیا اورآخرت میں زيادہ حق دار ہوں ، اورسب انبیاء علاتی بھائ ہيں ان کی مائيں مختلف اوردین ایک ہی ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3259 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2365 ) ۔
علاتی بھائ کا معنی یہ جن کا باپ ایک ہواور ماں اورہواسے علاتی بھائ کہا جاتا ہے ۔
اورہم یہاں آپ کویہ کہيں گے کہ آپ ایسا اعتقاد رکھنے سے بازرہیں کہ یھود ونصاری اورمسلمان اب ایک ہی مصدر پر ہیں کیونکہ یہ غلط اور غیرصحیح ہےجس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دین میں تحریف کرڈالی جس میں یہ تھا کہ وہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائيں اوران کی اتباع کریں اوران کے ساتھ کفرنہ کریں ، تواب آپ دیکھیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ساتھ کفرکرتے اور ایمان نہیں لاتے ، اوراللہ تعالی کے ساتھ شرک کرتے ہیں ۔
چہارم :
قدس میں یھودیوں کا کچھ حصہ نہیں ہے اس لیے کہ وہ زمین دووجہوں سے مسلمانوں کی بن چکی ہے اگرچہ پہلے وہاں پریھودی رہتے رہے ہیں :
1 - اس لیے کہ یھودیوں نے کفرکا ارتکاب کیا اوربنی اسرائیل کے مومنوں کے دین پر جنہوں نے موسی علیہ السلام کی پیروی واتباع کیا اوران پرایمان لاۓ اوران کی مدد کی یھودی ان کے دین پرواپس نہیں آۓ اوراس پرعمل نہیں کیا ۔
2 - ہم مسلمان ان سے اس جگہ کا زيادہ حق رکھتے ہیں ، اس لیے زمین پہلے رہائش اختیارکرنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ زمین کا مالک تووہی بنتا ہے جواس میں حدوداللہ کا نفاذ کرے اوراس میں اللہ تعالی کے حکم کوچلاۓ ، وہ اس لیے کہ زمین اللہ تعالی نے پیدافرمائ اورانسانوں کو اس لیے پیدا فرمایا کہ وہ اس زمین پررہتے ہوۓ اللہ تعالی کی عبادت کریں اوراس میں اللہ تعالی کا دین اورشریعت و حکم نافذ اورقائم کریں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ یقینا زمین اللہ تعالی کی ہی ہے وہ جسے چاہے اپنے بندوں میں سے اس کا وارث بنا دے اورآخر کامیابی انہیں کوہوتی ہے جومتقی ہیں } الاعراف ( 128 )۔
تواسی لیے اگرکوئ عرب قوم بھی وہاں آجاۓ جو کہ دین اسلام پرنہ ہوں اوروہاں کفرکا نفاذ کریں توان سے بھی جہاد وقتال کیا جاۓگا حتی کہ وہاں اسلام کا حکم نافذ ہویا پھر وہ قتل ہوجائيں ۔
اوریہ معاملہ کوئ نسلی اورمعاشرتی نہیں بلکہ یہ تو توحید و اسلام کا معاملہ ہے ۔
فائدے کے لیے ہم چندایک مقالہ نگاروں کی کلام نقل کرتے ہیں :
تاریخ اس بات کی شاھدہے کہ فلسطین میں سب سے پہلے بودوباش اورسکونت اختیارکرنے والے کنعانی تھے ، جنہوں چھ 6ہزارسال قبل میلاد وہاں رہائش اختیار کی جوکہ ایک عرب قبیلہ تھا اورجزیرہ عربیہ سے فلسطین میں آیا اوران کے آنے کےبعد ان کے نام سے اسے فلسطین کا نام دیا گیا ۔ دیکھیں کتاب : الصیھونیۃ نشاّتھا تنظیماتھا ، انشتطھا ۔ تالیف : احمد العوضی ص ( 7 ) ۔
اوریھودی تویہاں پر ابراھیم علیہ السلام کے آنے کے بھی تقریبا چھ سو سال آۓ ہیں یعنی اس کا معنی یہ ہوا کہ یھودی یہاں پر پہلی مرتبہ چودہ سوسال قبل میلاد آئيں ، تواس طرح کنعانی یھودیوں سے چار ہزار پانچ سوسال پہلے فلسطین میں داخل ہوۓ اوراسےاپنا وطن بنایا دیکھیں اوپر والی ہی کتاب صفحہ نمبر ( 8 ) ۔
تواس طرح یہ تایخی طورپربھی یہ ثابت ہوتا ہےکہ فلسطین میں یھودیوں کا نہ تو اب کوئ حق ہے اورنہ ہی اس پہلے کوئ حق تھا ، اورنہ توکوئ شرعی اوردینی حق ہے اور نہ ہی قدیم رہائشی اورمالک ہونے کے اعتبارسے ہی کوئ حق ہے ، بلکہ یہ لوگ غاصب اورظالم ہيں ۔
ہم اللہ تعالی سے دعاگو ہیں وہ ان نجس اورپلید یھودیوں سے جلداز جلد بیت المقدس کوپاک کرے اورانہیں وہاں سے نکالے اوراس میں دیرنہ کرے بلاشبہ اللہ تبارک وتعالی اس پرقادرہے اوروہ دعاکوقبول کرنے والا ہے ، والحمدللہ رب العالین ۔
واللہ اعلم .