لڑكى كى ماں پر قسم اٹھا لى كہ اگر لڑكى نے نقاب نہ اتارا تو اسے طلاق لڑكى كيا كرے ؟
زمرے
مصادر
Full Description
لڑكى كى ماں پر قسم اٹھا لى كہ اگر لڑكى نے نقاب نہ اتارا تو اسے طلاق لڑكى كيا كرے ؟
حلف بالطلاق من أمها إن هي لم تخلع نقابها فماذا تصنع ؟
[ أردو - اردو - urdu ]
شیخ محمد صالح المنجد
ترجمہ: اسلام سوال وجواب ویب سائٹ
تنسیق: اسلام ہا ؤس ویب سائٹ
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
تنسيق: موقع islamhouse
2013 - 1434
لڑكى كى ماں پر قسم اٹھا لى كہ اگر لڑكى نے نقاب نہ اتارا تو اسے طلاق لڑكى كيا كرے ؟
ميرى ايك سہيلى نقاب اوڑھتى ہے اور تعليم ميں كچھ پيچھے رہ گئى تو اس كے والد نے كہا يہ سب كچھ اس نقاب كى وجہ سے ہوا ہے، اور اس نے لڑكى كى والدہ پر قسم كھائى كہ اگر لڑكى نے نقاب نہ اتارا تو لڑكى كى ماں كو طلاق، اب اس لڑكى كو كيا كرنا چاہيے ؟
الحمد للہ:
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى سہيلى كو حق پر ثابت قدم ركھے، اور اس كے والد كو رشد و ہدايت نصيب فرمائے.
اول:
عورت كے ليے اجنبى مردوں سے اپنا چہرہ چھپانا واجب ہے؛ اس كے كئى ايك دلائل ہيں جن كا بيان سوال نمبر ( 11774 ) كے جواب ميں تفصيلى بيان ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
دوم:
باپ كو چاہيے كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرے، اور اپنى بيٹى كو نقاب كرنے سے منع مت كرے، اس كى بيٹى نے تو چہرے كا پردہ كر كے وہ كام كيا ہے جو اللہ سبحانہ و تعالى نے اس پر فرض كيا تھا، اور پھر يہ تو استقامت و عفت و عصمت كى علامت ہے.
نقاب اور پردہ كرنا تعليم ميں كمى اور كوتاہى كا باعث نہيں، نقاب كرنے پر والد كا ملامت كرنا كمزور ايمان كى نشانى ہے، اور بچى كى ماں كو طلاق كى دھمكى دينا بہت بڑى غلطى ہے؛ كيونكہ ماں كا تو اس كے ساتھ كوئى تعلق نہيں ہے، اور پھر ايسا كوئى سبب بھى نہيں پايا جاتا جس كى بنا پر اس كى ماں كو طلاق دى جائے.
اس ليے بيٹى كے پردہ اور نقاب كرنے پر ماں كى طلاق كو معلق كرنا تو عجز اور كمزورى كى علامت ہے، كون ايسا عقلمند ہے جو صرف اس ليے اپنا گھر تباہ كر بيٹھے اور اپنا خاندان گنوا دے كہ اس كى بيٹى نے شرعى پردے كا التزام كيا ہے، اور غير محرم اوراجنبى مردوں كو اپنى طرف ديكھنے سے منع كر ديا ہے؟!
سوم:
كسى بھى معاملہ پر طلاق كو معلق كرنے ـ جيسا كہ اس لڑكى كے باپ نے كيا ہے ـ كے حكم ميں علماء كا اختلاف پايا جاتا ہے، اكثر اہل علم كے ہاں تو جيسے ہى شرط پائى جائے جس پر طلاق كو معلق كيا گيا تھا تو طلاق واقع ہو جائيگى.
ليكن كچھ علماء كرام اس ميں تفصيل بيان كرتے ہيں كہ اگر اس نے طلاق كا ارادہ كيا تو طلاق واقع ہو جائيگى، اور اگر صرف دھمكى اور خوفزدہ كرنا اور ڈرانا مقصود تھا تو يہ قسم كے حكم ميں ہے طلاق نہيں.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 82400 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
رہا يہ مسئلہ كہ آيا يہ لڑكى اپنے والد كى بات مانتے اور اس كى اطاعت كرتے ہوئے پردہ اور نقاب اتار دے اور يہ اس پر مجبور ہو گى يا پھر وہ نقاب كرتى رہے چاہے ماں كو طلاق بھى ہو جائے ؟
اس ميں تفصيل پائى جاتى ہے:
اگر تو يہ پہلى يا دوسرى طلاق ہے تو ہمارى رائے تو يہى ہے كہ وہ باپ كى بات نہ مانے، ليكن اگر تيسرى طلاق ہے تو يہ اس معصيت كے ارتكاب ميں مجبور اور مضطر كے حكم ميں ہوگى اور وہ اپنا چہرہ ننگا كر دے، اور بقدر استطاعت چہرے كا پردہ كرنے اور اسے چھپانے كى كوشش كرے، اور بغير ضرورت گھر سے باہر ہى نہ نكلے، حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى اس كے ليے آسانى پيدا كر دے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا اللہ تعالى نے ميرى امت سے بھول چوك اورخطا و نسيان اور جس پر انہيں مجبور كر ديا گيا ہو معاف كر ديا ہے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1662 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 117169 ) اور ( 136070 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر باپ اپنے بيٹے سے كہے بيٹے يہ دس ريال لے كر ميرے ليے سگرٹ كى ڈبى خريد لاؤ! تو كيا بيٹے پر اس كى اطاعت لازم ہے يا نہيں ؟
جواب:
نہيں اس پر باپ كى اطاعت لازم نہيں، بلكہ اس صورت ميں اس كى اطاعت حرام ہو گى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور اگر وہ دونوں ( والدين ) تجھے اس پر ابھاريں كہ تم ميرے ساتھ شرك كرو جس كا تجھے علم نہيں تو تم ان كى اطاعت مت كرو }لقمان ( 15 ).
اور اگر وہ كہے كہ جاؤ سگرٹ خريد كر لاؤ وگرنہ ميں تيرى ماں كو طلاق دے دوں گا! بعض بےوقوف ايسا كرتے ہيں تو بيٹا اس پر مجبور ہو جاتا ہے تو كيا يہ ضرورت ہو گى يا نہيں ؟
ظاہر يہى ہوتا ہے كہ يہ ضرورت ہے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے يہ بے وقوف ( والد ) جرات كرتا ہوا اس كى ماں كو طلاق دے دے اور يہ آخرى طلاق ہو يعنى تيسرى طلاق تو اس طرح خاندان كا شيرازہ ہى بكھر جائے.
بہر حال اہم يہ ہے جب اس كى ضرورت ہو تو يہ بھى دوسرى حرام اشياء كى طرح ہى ہے جسے ضروريات مباح كر ديتى ہيں، ليكن اگر ضرورت نہ ہو تو پھر بيٹے پر واجب ہے كہ وہ اپنے والد كى اسم عصيت ميں اطاعت مت كرے.
شرح بلوغ المرام كتاب البيوع كيسٹ نمبر ( 2 ) اور ديكھيں: فتح ذى الجلال شرح بلوغ المرام ( 3 / 472 ) طبع مكتبہ اسلاميہ.
مزيد آپ سوال نمبر ( 12094 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں كيونكہ اسم يں سابقہ مسئلہ كى تفصيل ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا فتوى ہے كہ اگر طلاق رجعى ہو تو كيا كرے اور اگر تيسرى طلاق ہو تو كيا كرے.
ہمارى اس بہن كو نصيحت يہى ہے كہ وہ اپنے پروردگار كے سامنے عاجزى و انكسارى سے دعا كرے كہ وہ اس كے والد كو ہدايت نصيب فرمائے، اور اس كى اصلاح كرے اور اسے رشد و ہدايت سے نوازے.
پھر اسے چاہيے كہ وہ اپنے والد كو نرمى كے ساتھ سمجھانے اور مطمئن كرنے كى كوشش كرے كہ پڑھائى ميں سستى ہوجانے ميں نقاب كا كوئى دخل نہيں، اور اسے اس سستى اور كوتاہى كو ختم كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، اور اس سلسلہ ميں وہ اللہ تعالى سے مدد طلب كرے، اور اس كے ساتھ ساتھ مزيد پڑھائى ميں جدوجھد اور كوشش كرے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اس كے والد كو ہدايت دے اور اس كى اصلاح فرمائے، اور ہمارى بہن كو اپنى اطاعت پر ثابت قدم ركھے، اور ايسے عمل كرنے كى توفيق دے جس پر اللہ راضى ہوتا ہے.
واللہ اعلم .