خاندان والوں كى لاعلمى ميں اسلام قبول كر ليا اور اب وہ اس كى غير مسلم سے شادى كرنا چاہتے ہيں
زمرے
مصادر
Full Description
خاندان والوں كى لاعلمى ميں اسلام قبول كر ليا اور اب وہ اس كى غير مسلم سے شادى كرنا چاہتے ہيں
أسلمت وأهلها لا يدرون ويريدون تزويجها لغير مسلم
[ أردو - اردو - urdu ]
شیخ محمد صالح المنجد
ترجمہ: اسلام سوال وجواب ویب سائٹ
تنسیق: اسلام ہا ؤس ویب سائٹ
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
تنسيق: موقع islamhouse
2013 - 1434
خاندان والوں كى لاعلمى ميں اسلام قبول كر ليا اور اب وہ اس كى غير مسلم سے شادى كرنا چاہتے ہيں
الحمد للہ ميں دو يا تين برس سے مسلمان ہو چكى ہوں يونيورسٹى ميں اپنے كلاس فيلو سے متاثر ہوئى اور پھر ہم ايك دوسرے كو پسند كرنے لگے، اور ميں نے اسلام قبول كر ليا اور اب ہم شادى كى رغبت ركھتے ہيں، كيونكہ خاندان كافر ہے اس ليے وہ ان تعلقات كى مخالفت كرتا ہے، اور اسى طرح اس نوجوان كے والدين كى بھى يہى حالت ہے، ميرے والدين كو ميرے اسلام قبول كرنے كا كوئى علم نہيں، كيونكہ نے اسلام ظاہر نہيں كيا اور خفيہ طور پر اسلامى امور پر عمل كرتى ہوں.
اور ميں آپ كو يہ بھى معلومات دينا چاہتى ہوں كہ ميں مذكورہ نوجوان سے شادى كر كے ايك اسلامى زندگى بسر كرنا چاہتى ہوں، ميں كسى كافر شخص سے شادى نہيں كرنا چاہتى ميرے والدين چاہتے ہيں كہ ميں اپنے ملك واپس جا كر ايسے شخص سے شادى كروں جو ان كے دين پر ہى عمل كرتا ہے.
كيا ہمارى شادى كے ليے ہمارے والدين كى موافقت ضرورى ہے، اور كيا ان كے علم كے بغير ہمارى شادى ممكن ہے يا كہ اسے ان كى اجازت تك مؤخر كر ديا جائے، مجھے خدشہ ہے كہ اگر ميرے والدين كو پتہ چل گيا كہ ميں مسلمان ہو گئى ہوں تو وہ زندگى سے ہاتھ دھو بيٹھيں گے اور مر جائينگے، كيونكہ وہ مسلمانوں كو ناپسند كرتے ہيں، اور ميں نہيں جانتى كہ انہيں كيسے مطمئن كيا جائے، كيا ميرى شادى كے ليے انہيں مطمئن كرنا ضرورى ہے، يا كہ ميرے ليے ان كى رغبت كى مخالفت كرنا جائز ہے ؟
الحمد للہ
اول:
سوال كا جواب دينے سے قبل ہميں يہ خوشى محسوس ہو گى كہ ہم آپ كو اسلام قبول كرنے پر مباركباد پيش كريں، كيونكہ يہى وہ دين ہے جو خاتم الاديان ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے اسى دين كو سارى مخلوق كے ليے اختيار كيا اور اس كو دين اپنانے پر راضى ہوا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو مبعوث كيا تا كہ وہ سب جہانوں كے ليے خوشخبرى دينے اور ڈرانے والے ہوں.
آپ سے قبل بھى بہت سارے افراد كو اللہ سبحانہ و تعالى نے اس دين كى ہدايت نصيب فرمائى اور انہوں نے اسلام قبول كيا، اور بہت سارے افراد اپنے عناد و دشمنى اور تكبر كى بنا پر اس نعمت سے محروم رہے، اس ليے آپ پر واجب اور ضرورى ہے كہ آپ ہر وقت اپنے پروردگار كا شكر ادا كريں جس نے آپ كو كفر و جہالت كے اندھيروں سے نكال كر ايمان و اسلام اور علم و توحيد كے نور اور روشنى كى راہ پر ڈال ديا، اور آپ كے دين اسلام كے احكام كى تعليم حاصل كرنا ضرورى ہے تا كہ آپ كے اطمنان اور حسن اختيار اور بھى اضافہ ہو اور آپ كے دل كو اللہ تعالى ثابت قدم ركھے.
دوم:
آپ نيا نيا اسلام قبول كرنا آپ كو يہ بتانے ميں ہمارے ليے مانع نہيں كہ يہ دين عظيم احكام لايا ہے، جس سے مسلمان كے دين اور اس كى عزت و عصمت اور عقل اور اس كے مال و دولت اور حسب و نسب كى حفاظت ہوتى ہے، اس ليے اس كى حفاظت كے ليے ايسى اشياء بھى ہيں جو حرام اور ممنوع ہيں اور اس ميں ايسى بھى ہيں جو اسى بنا پر واجب اور ضرورى ہيں، يہاں آپ كے سوال كے متعلق دو چيزيں پيش نظر ہيں:
عزت و عصمت اور نسب كى حفاظت كے ليے دين اسلام ميں دونوں جنسوں يعنى مرد و عورت كے درميان اختلاط اور ميل جول اور مرد كا عورت كے ساتھ خلوت كرنا اور اسے ہاتھ سے چھونا حرام ہے، چہ جائيكہ اس سے بھى بڑا فحش كام زنا كا ارتكاب كيا جائے كيونكہ يہ زنا كارى تو عظيم كبيرہ گناہ ہے.
اس ليے ہم ديكھتے ہيں كہ دين اسلام نے عورت كو ايك قيمتى جوہر قرار ديا ہے تا كہ يہ سستا اور آسان مال بن كر انسانى بھيڑيوں كے ہتھے نہ چڑھ جائے جيسا كہ اكثر يورپى اور غير مسلم ممالك اور ان كى تقليد كرنے والے بےوقوف قسم كے مسلمانوں كے ہاں عورت كى حالت ہے ـ اسے ميگزين اور اخبارات ميں اشياء كى ايڈوٹائزمنٹ كے ليے استعمال كيا جاتا ہے ـ حالانكہ دين اسلام تو اس كا بہت زيادہ دور سمجھتا ہے جو عورت كے ماں اور ايك اچھى بيوى ہونے كى صورت ميں سامنے آتا ہے.
دوسرى چيز يہ ہے كہ: عورت كے دين كى حفاظت كے ليے اللہ سحبانہ و تعالى نے عورت كے ليے كسى غير مسلم اور كافر مرد سے شادى كرنا حرام كيا ہے، اور يہ حكم قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نص قرآنى اور اجماع كى رو سے كافر شخص كے ليے مسلمان عورت حلال نہيں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو جب تمہارے پاس مومن عورتيں ہجرت كر كے آ جائيں تو انہيں آزماؤ اللہ ان كے ايمان كو زيادہ جانتا ہے، تو اگر تمہيں علم ہو جائے كہ وہ مومن عورتيں ہيں تو تم انہيں كافروں كى طرف واپس مت كرو، نہ تو وہ عورتيں ان كافروں كے ليے حلال ہيں، اور نہ ہى وہ كافر مرد ان مومن عورتوں كے ليے حلال ہيں الممتحنۃ ( 10 ).
جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے كہ نص قرآنى اور اجماع كى رو سے مسلمان عورت كسى كافر مرد كے ليے حلال نہيں چاہے وہ وہ كافر اصلى كافر ہو مرتد نہ ہو، اسى ليے اگر كسى كافر شخص نے كسى مسلمان عورت سے نكاح كر ليا تو اس كا نكاح باطل ہے، اور ان دونوں كے مابين تفريق اور عليحدگى كرانا واجب ہے، اور اگر كافر شخص اسلام قبول كر لے اور وہ اس عورت سے شادى كرنا چاہے تو اس كے ساتھ نئے عقد نكاح كے ساتھ ايسا ہو سكتا ہے اس كے بغير نہيں " انتہى مختصرا
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 12 / 138 - 140 ).
سوم:
عقد نكاح كے صحيح ہونے كے ليے يہ شرط ہے كہ عورت كا ولى موجود ہو، اور كوئى كافر شخص كسى مسلمان عورت كا ولى نہيں بن سكتا اس ميں سب علماء كا اتفاق ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رہا كافر تو يہ كسى بھى حالت ميں مسلمان عورت كا ولى نہيں بن سكتا، اس پر سب اہل علم جن ميں مالكى شافعى اور ابو عبيد اور اصحاب الرائے شامل ہيں كا اتفاق اور اجماع ہے، اور ابن منذر كہتے ہيں: اہل علم ميں سے جن سے بھى ہم نے علم حاصل كيا ہے ان سب كا اس پر اجماع ہے "
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 21 ).
حتى كہ آپ جيسى حالت ميں بھى شادى ميں ولى كا ہونا ضرورى ہے، اور اگر آپ كے خاندان ميں كوئى مسلمان نہيں تو آپ كى شادى حكمران كا قائم مقام كريگا جو شرعى قاضى يا مفتى يا اسلامك سينٹر كا انچارچ يا امام مسجد ہو.
آپ كے ليے اپنے والد سے شادى كى اجازت لينا ضرورى نہيں كيونكہ وہ كافر ہے اور آپ كا ولى نہيں بن سكتا، اور جب شادى ہو جائے تو جائز ہے كہ آپ كے والدين كو اس كى خبر بھى نہ پہنچے، اور نہ ہى آپ كے ليے انہيں بتانا ضرورى ہے.
چہارم:
اور اگر ولى مسلمان بھى ہو تو بھى اس كے ليے جائز نہيں كہ اپنى ولايت ميں موجود لڑكى كو ايسے شخص سے شادى پر مجبور كرے جس ميں وہ رغبت نہ ركھتى ہو، اور پھر شريعت اسلاميہ مطہرہ نے لڑكى كى رضامند كو عقد نكاح كا ايك ركن مقرر كيا ہے، اور اگر لڑكى كو مجبور كيا گيا ہو تو وہ عقد نكاح صحيح نہيں ہو گا، اور اگر ثابت ہو جائے كہ شادى پر لڑكى كو مجبور كيا گيا ہے تو مسلمان قاضى اسے اس عقد نكاح كو ركھنے يا فسخ كرنے كا اختيار ديگا.
اسى طرح والدين ميں سے كسى ايك كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ اپنے بيٹے كو ايسى عورت سے نكاح كرنے پر مجبور كرے جس سے اس كى رغبت نہ ہو، بيٹے كى شادى ميں والدين كى رضامندى كو اللہ تعالى نے عقد نكاح صحيح ہونے كى شرط نہيں بنايا، ليكن بيٹے كو چاہيے كہ جب وہ والدين كى رغبت سے انكار كرے تو اس ميں نرمى اختيار كرے، اور اسے والدين كى رضامندى كے حصول كے ليے اور جس سے وہ شادى كرنا چاہتا ہے اس پر انہيں راضى كرنے كے ليے ہر قسم كى كوشش كرے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" والد كے ليے جائز نہيں كہ وہ بيٹے كو ايسى عورت كے شادى كرنے پر مجبور كرے جس پر وہ راضى نہيں، چاہے وہ كسى دينى عيب كى بنا پر ہو يا كسى اخلاقى عيب كى وجہ سے، اور كتنے ہى زيادہ ہيں وہ لوگ جنہوں نے اپنى اولاد كو ايسى عورتوں سے شادى كرنے پر مجبور كيا جنہيں وہ نہيں چاہتے تھے باپ كہتا ہے: اس سے شادى كرو كيونكہ يہ ميرى بھتيجى ہے، يا اس ليے كہ يہ تيرى برادرى اور قبيلہ سے تعلق ركھتى ہے وغيرہ عذر بيان كرتا ہے، اس ليے بيٹے كو يہ قبول كرنا لازم نہيں، اور نہ ہى والد كے ليے جائز ہے كہ وہ اس پر بيٹے كو مجبور كرے، اور اسى طرح اگر بيٹا كسى نيك و صالح عورت سے شادى كرنا چاہے ليكن باپ اسے منع كر دے، تو بيٹے كو باپ كى اس مسئلہ ميں اطاعت كرنى لازم نہيں.
جب بيٹا نيك و صالح بيوى پر راضى ہو اور باپ اسے كہنے كہ اس سے شادى مت كرو تو بيٹے كو اس سے شادى كرنے كا حق حاصل ہے چاہے والد اسے اس عورت سے شادى كرنے سے منع ہى كر رہا ہو، كيونكہ بيٹے كے ليے باپ كى كسى ايسى چيز ميں اطاعت كرنا ضرورى اور لازم نہيں جس ميں باپ كو كوئى ضرر اور نقصان نہ ہوتا ہو اور بيٹے كو اس ميں فائدہ پہنچتا ہو.
اور اگر ہم يہ كہيں كہ: بيٹے كو ہر مسئلہ ميں اپنے والد كى اطاعت كرنا لازم ہے حتى كہ اس ميں بھى جس ميں بيٹے كو فائدہ اور باپ كو كوئى نقصان نہيں تو اس سے خرابى حاصل ہو گى ليكن اس طرح كى حالت ميں بيٹے كو چاہيے كہ وہ اپنے والد كے ساتھ عقلمندى كا مظاہرہ كرے، اور حسب استطاعت جتنى طاقت ركھتا ہو والد كے ساتھ مدارت و نرمى سے كام ليتے ہوئے اسے مطمئن كرنے كى كوشش كرے " انتہى
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 640 - 641 ).
پنجم:
آپ كو چاہيے كہ اپنے والدين كو بچانے اور اپنى اور ان كى دنياوى و اخروى سعادت كى تكميل كے ليے اپنى استطاعت كے مطابق كوشش كريں، اور اس كے ليے آپ كئى ايك طريقے اختيار كر سكتى ہيں جس كے ذريعہ انہيں اسلام كى دعوت ديں: مثلا آپ اى ميل كے ذريعہ پيغام ديں اور اسلام كى دعوت ديں جس ميں انہيں يہ علم ہى نہ ہو سكے كہ يہ اى ميل آپ كى جانب سے كى گئى ہے.
اور يہ بھى ممكن ہے كہ آپ ان كا اى ميل ايڈريس ايسے لوگوں كے ديں جو علوم شريعت كے ماہر ہيں اور دعوت دين ميں انہيں تجربہ حاصل ہے تا كہ وہ اسلام كى دعوت دينے ميں آپ كى جانب سے ذمہ دارى پورى كريں، اور اسى طرح آپ اپنےق قريبى اسلامك سينٹر سے تعاون حاصل كريں تا كہ وہاں موجود دعوت دينے والوں ميں سے بعض آپ كے والدين كو مليں اور انہيں دعوت ديں، اور يہ بھى ممكن ہے كہ آپ عام ڈاك كے ذريعہ انہيں كيسٹ اور دينى كتب ارسال كريں تا كہ وہ ان سے مستفيد ہو سكيں.
دوسروں كى بجائے آپ كو ان كے حال كا زيادہ علم ہے ہو سكتا ہے آپ كا انہيں اسلام قبول كرنے كى خبر دينا ان كے اسلام قبول كرنے كا باعث بن جائے، اگر واقعتا ايسا ہو سكتا ہے تو آپ انہيں ضرور بتائيں كہ آپ مسلمان ہو چكى ہيں، اور اگر آپ ديكھيں كہ ايسا كرنے ميں كوئى فائدہ نہيں اور ايسا كرنے سے ان پر منفى اثر ہو گا، يا پھر اس كے باعث آپ كے ليے مشكل اور تنگى پيدا ہو سكتى ہے تو پھر آپ انہيں اپنے اسلام كى خبر مت ديں، اس خبر كو مؤخر كرنا ممكن ہے حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى ان كے ليے اسلام قبول كرنے كے دروازے كھول دے، اور آپ اپنے اللہ عزوجل سے عاجزى وانكسارى كے ساتھ صدق دل سے ان كى ہدايت كے ليے دعا كرتى رہيں.
ہم اللہ سبحانہ و تعالى سے دعاگو ہيں كہ وہ آپ اس دين اسلام پر ثابت قدم ركھے، اور ہم يہ بھى دعا كرتے ہيں كہ اللہ تعالى آپ كے والدين كو بھى دين اسلام كى ہدايت نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب