درختوں کے بارہ میں معلومات
اس مادہ کے ترجمے
زمرے
مصادر
Full Description
درختوں کے بارہ میں معلومات
أخبار الأشجار
[ أردو - اردو - urdu ]
الشیخ محمد صالح المنجد
ترجمہ: اسلام سوال وجواب ویب سائٹ
تنسیق: اسلام ہا ؤس ویب سائٹ
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
تنسيق: موقع islamhouse
2013 - 1434
درختوں کے بارہ میں معلومات
کیا آپ مجھے مندرجہ ذيل پرقرآن وسنت سے دلائل دے سکتے ہیں ؟
شجرۃ طوبی ، شجرۃ الخلد ، شجرۃ المعرفہ ، الشجرۃ العظیمہ ، جنت ( آسمان ) میں سب سے لمبا درخت ۔
یہ سب درخت مسلمانوں کے ہاں معروف ہیں اورمیں ان کے صداقت تلاش کررہا ہوں
الحمد للہ
قرآن وسنت میں بہت سارے درختوں کا ذکر ملتا ہے جن میں سے بعض کوذیل میں ذکر کیا جاتا ہے :
کھجور کا درخت :
یہ شجرۃ طیبہ ہے اللہ تعالی نے کلمہ توحیدکی اس کے ساتھ مثال بھی بیان کی ہے ، کہ کلمہ توحید جب صدق قلب سے کہا جاۓ اوروہ دل میں جاگزیں ہوجاۓ توایسے اعمال کا ثمردیتا ہے جوایمان کوقوی کرتے ہیں ۔
اللہ تعالی نے اس کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے :
{ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی نے پاکیزہ کلمہ کی مثال کس طرح بیان فرمائ پاکیزہ کلمہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اورجس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں } ابراھیم ( 24 ) ۔
اوریہ وہی درخت ہے جس کی مومن کے لیے مثال دی گئ ہے کہ وہ اس کے لیے بہت نفع مند اور دیرپا ہے اور اس کے فائدے کئ قسم کے ہیں جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :
درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں گرتے اوروہ مسلمان کی طرح ہے مجھے بتاؤ وہ کونسا درخت ہے ؟ عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ لوگ بستیوں کے درختوں کے بارہ میں سوچنے لگے ، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ میرے خیال میں آیا کہ یہ درخت کھجور کا درخت ہے لیکن ميں شرما گيا ، پھرصحابہ کہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آّپ ہی ہمیں بتائيں کہ وہ کون سا درخت ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ کھجور ہے ۔ صحیح بخاری ( 60 ) ۔
زیتون کا درخت :
یہ وہ مبارک درخت ہے جس کے تیل کے صاف شفاف ہونے کی مثال بیان کی ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی نے اس فرمان میں کہا ہے :
{ اللہ تعالی آسمان وزمین کا نور ہے اس کے نورکی مثال ایک طاق کی ہے جس میں چراغ ہو اور چراغ شیشے کی قندیل میں ہو اورشیشہ چمکتے ہوۓ روشن ستارے کی طرح ہو وہ چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جودرخت نہ شرقی ہے نہ غربی اس کا تیل قریب ہے کہ آپ ہی آپ روشنی دینے اگرچہ اسے آگ نہ بھی چھوۓ وہ نور پر نور ہے اللہ تعالی اپنے نور کی طرف جسے چاہے راہنمائ کرتا ہے ، اللہ تعالی لوگوں کے لیے یہ مثالیں بیان فرمارہا ہے اور اللہ تعالی ہرچیز کے حال سے بخوبی واقف ہے } النور ( 35 ) ۔
اوراللہ تعالی نے سورۃ المومنون میں فرمایا ہے کہ :
{ اوروہ درخت جوطورسیناء سے نکلتا ہے تیل پیداکرتا اورکھانے والے کے لیے سالن ہے } المومنون ( 20 ) ۔
اس کا ذکرفرمان نبوی میں بھی ملتا ہے ، ابوسعید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( زیتون کا تیل کھایا اوراسے لگایا کرو اس لیے کہ وہ بابرکت درخت سے نکلتا ہے ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1775 ) اوریہ صحیح الجامع میں بھی ہے ۔
وہ درخت جو اللہ تعالی نے یونس علیہ السلام کے لیے بطورعلاج اورغذا اگایا تھا ، جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے :
{ اوربلاشبہ یونس علیہ السلام نبیوں میں سے تھے ، جب وہ بھاگ کرایک بھری کشتی پرپہنچے ، پھرقرعہ اندازی ہوئ تویہ مغلوب ہوگۓ ، توپھرانہیں مچھلی نے نگل لیا اوروہ خود اپنے آپ کوملامت کرنے لگے ، اوراگر وہ پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے ، تولوگوں کے اٹھاۓ جانے کے دن تک اس ( مچھلی ) کے پیٹ میں ہی رہتے ، توانہیں ہم نے چٹیل میدان میں ڈال دیا اوروہ اس وقت بیمار تھے اور ہم نے ان پر ایک سایہ کرنے والا بیل دار درخت اگا دیا } الصافات ( 139 - 146 ) ۔
مفسرون یہ کہتے ہیں کہ یقطین کدو کی بیل ہے ، اوربعض نے اس کے فوائد ذکرکرتے ہوۓ کہا ہے کہ یہ تيزی سے اگتا ہے اور اس کے پتے چوڑےاور بڑے ہونے کی بنا پر سایہ دار ہوتے ہیں اور اس کے قریب مکھیاں نہیں جاتیں اورکا پھل بہت مغذی ہوتا ہے ، اوروہ کچا اورپکاکر اور اس کا چھلکا بھی کھایا جاتا ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ وہ کدوپسند فرمایا کرتے اورپلیٹ میں سے تلاش کیا کرتے تھے ۔ تفسیر ابن کثير ۔
آسمان میں وہ عظیم درخت جس کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جدامجد ابراھیم علیہ السلام کودیکھا تھا ۔
سمرہ بن جندب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کے قصہ میں فرمایا کہ :
پھرہم ایک سرسبزوشاداب باغ میں آۓ جس میں ایک عظیم درخت تھا اوراس کے نیچے ایک بوڑھا اوربچے بیٹھے تھے اوردرخت کے قریب ہی ایک آدمی آگ جلارہا تھا ، تومجھے درخت پرلے گۓ اورمجھے ایک گھر میں داخل کیا اس جیسا خوبصورت اوراس سے افضل گھر میں نے آج تک نہیں دیکھااس میں جس میں مردوعورت بوڑھے بچے نوجوان تھے ، پھر مجھے وہاں سے نکال کر درخت پرلےگۓ اورایک خوبصورت اورافضل گھرمیں داخل کیا جس میں بوڑھے اورجوان تھے میں نے کہا تم نے مجھے آج رات گھمایا پھرایا ہے تو جوکچھ میں نے دیکھا ہے اس کے بارہ میں مجھے بتاؤ ، تووہ کہنے لگے جی ہاں ۔۔۔۔ اوراس درخت کے نیچے ابراھیم علیہ السلام اوران کے ارد گرد لوگوں کی اولاد تھی ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1270 ) ۔
سدرۃ المنتھی : بیری کا درخت جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے وقت آسمان میں جبریل امین علیہ السلام کواس درخت کے پاس دیکھا ۔
اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
{ اسے توایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا سدرۃ المنتھی کے پاس اسی کے پاس جنۃ الماوی ہے جب کہ سدرہ کوچھپاۓ لیتی تھی وہ چيز اس پرچھا رہی تھی ، نہ تونگاہ بہکی اور نہ ہی حد سے بڑھی ، یقینا اس نے اپنے رب کی بڑی بڑي نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں } النجم ( 13 - 18 ) ۔
{ جب کہ سدرہ کوچھپاۓ لیتی تھی وہ چيز اس پرچھا رہی تھی } کی تفسیر میں امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے ابوذررضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث نقل کی ہے جس میں ہے کہ " تواس پرایسے رنگ چھا گۓ جنہیں میں نہیں جانتا کہ وہ کونسے ہیں ۔
اورابوسعید اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے کہ اسے فرشتوں نے ڈھانپ لیا ، اورمسلم کی روایت میں ہے کہ " جب اسےاللہ تعالی کے حکم سے ڈھانپ لیا جس نے اسے چھپا رکھا تواس میں تغیر آگيا ، تواللہ تعالی کی مخلوق میں کوئ ایسا نہیں جواس کے حسن کی صفت بیان کرے ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث معراج میں اس کا ذکر کیا ہے کہ جب انہیں جبریل علیہ السلام آسمان پر لے گۓ اوراللہ تعالی کے حکم سے ایک کے بعد دوسرا آسمان گزرتے رہے حتی کہ ساتویں آسمان میں داخل ہوگۓ تو کہنے لگے پھرمیرے سامنے سدرۃ المنتھی ظاہر کی گئ تواس کے بیر (پھل) ھجر کے مٹکوں کی طرح اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے ، تو وہ کہتے ہیں کہ یہی سدرۃ المنتہی ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر( 3598 ) ۔
اورسدرۃ المنتھی کے نام کا سبب صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما کی حديث میں بیا ن کیا گيا ہے جس میں ہے کہ :
زمین سے جوبھی اوپرچڑھتا ہے وہ اس جگہ جاکر اس کی انتھاء ہوجاتی ہے تووہاں سے اسے لے لیا جاتا ہے ، اور اترنے والےکی انتھاء بھی یہیں ہوتی ہے تو وہاں سے اسے لے لیا جاتا ہے ۔
اورامام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ : سدرۃ المنتھی اس لیے کہا جاتا ہےکہ فرشتوں کی پہنچ وہاں تک ہی ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کےعلاوہ کسی اورنے وہاں سے تجاوز نہیں کیا ۔
اوریہی وہ درخت ہے جس تک ہرمرسل نبی اورمقرب فرشتے کا علم ختم ہوجاتا ہے ، اوراس درخت کے بعد ( یعنی اوپر) غیب ہے جسے اللہ تعالی کے علاوہ کوئ اورنہیں جانتا یاپھر اسے علم ہوتا ہے جسے اللہ تعالی بتا دے ۔
اور یہ بھی کہا گيا ہے کہ شھداء کی ارواح یہاں تک جاتی ہیں ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ( فاذا نبقھا ) نبق معروف ہے جو کہ بیری کا پھل اورجسے ہم بیر کہتے ہیں ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ( مثل قلال ھجر ) خطابی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ القلال کسرہ کے ساتھ یہ قلہ کی جمع ہے اور مٹکے کو کہا جاتا ہے یعنی کہ اس کے بیر مٹکے جتنے بڑے تھے اورمخاطبوں کے ہاں معروف ہونے کی بنا پراس کی مثال بیا ن کی گئ ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسل کا (ھجر) کہنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح ھجر شہر کے مٹکے بڑے ہوتے ہیں اسی طرح وہ بیر بھی بڑے تھے ، اورنبی صلی اللہ نے یہ فرمایا کہ ( واذا ورقہا مثل آذان الفیلۃ ) یعنی ان کے پتے ہاتھی کے کانوں کے طرح بڑے بڑے تھے ۔
جنت میں شجرۃ طوبی :
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں یہ نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ :
( جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے ساۓ میں گھڑسوار سوبرس تک بھی چلتا رہے تو وہ ختم نہیں ہوگا ، اور اگر تم چاہتے ہو تو اللہ تعالی کا فرمان پڑھ لو ( وظل ممدود ) اور ایک لمبا سایہ ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4502 ) ۔
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
طوبی جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے خوشوں سے جنتیوں کے کپڑے نکلیں گے اور اس کی مسافت سوبرس کی ہے ۔ اسے ابن حبان نے روایت کیا ہے اور صحیح الجامع ( 3918 ) میں بھی ہے ۔
عقبہ بن عبدالسلمی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ ایک اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اوران سے حوض کا پوچھا اورجنت کا بھی ذکر کیا پھر اعرابی کہنے لگا : کیا اس میں پھل بھی ہیں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جی ہاں اور اس میں ایک ایسا درخت بھی ہے جسے طوبی کا نام دیا جاتا ہے ، وہ کہنے لگا کہ ہماری زمین کے درختوں میں سے کونسا ایسا درخت ہے جوطوبی سے مشابھت رکھتا ہو ؟
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے علاقے کاکوئ بھی درخت اس سے مشابھت نہیں رکھتا ، پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے کہنے لگے کیا توشام گیا ہے ؟ اس نے جواب دیا نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شام میں اس کے مشابہ درخت پایا جاتا ہے جسے وہ جوزہ کانام دیتے ہیں وہ صرف ایک ہی تنے پراگتااوراوپر سے بچھ جاتا ہے ۔
اس اعرابی نے کہا کہ اس کی جڑ کتنی بڑي ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرتواونٹ میں سے جذعہ ( جس کی عمرچار برس ہو) لے کر نکلے تواس کی اصل کا احاطہ نہیں کرسکتا حتی کہ وبوڑھا ہوجاۓ ۔
وہ اعرابی کہنے لگا کیا جنت میں انگور ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جی ہاں اس نے کہا کہ اس کا خوشہ کتنا بڑا ہوگا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ خوشہ یاگچھہ اتنا بڑا ہوگا کہ کوا ایک مہینہ بھی اڑتا رہے تواس کی مسافت ختم نہیں ہوگی ۔
اعربی نے کہا کہ انگور کا ایک دانہ کتنا بڑا ہوگا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تیرے باپ نے کبھی بہت بڑا بکرا ذبح کیا ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اس کی کھال اتارکرتیری ماں کودی اورکہا ہو کہ اس سے ڈول بنا لو ؟ تواعرابی کہنے لگا جی ہاں ۔
تواعرابی یہ کہتے لگایہ ایک دانہ مجھے اورمیرے گھر والوں کوبھوک مٹا دے گا ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جی ہاں اور تیرے عام قبیلہ والوں کی بھی ۔ امام احمدرحمہ اللہ نے اسے مسند احمد میں روایت کیا ہے ۔
زقوم ( یعنی تھور ) کا درخت جو کہ جہنمیوں کا کھانا ہوگا :
یہ وہی درخت ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ اورقرآن مجید میں ملعون درخت } ۔
اور اس کے بارہ میں یہ بھی فرمایا ہے کہ :
{ پھر تم اے گمراہو جھٹلانے والو ! تم ضرور تھوہر کا درخت کھانے والے ہو اور اسی سے تم اپنا پیٹ بھرنے والے ہو پھراس پر گرم کھولتا ہوا پانی پینے والے ہو ، پھر پینے والے بھی اس کی جس طرح پیاسے اونٹ پیتے ہیں یہ ہوگی قیامت کے دن ان کی مہمانی } الواقعۃ ( 51 - 56 ) ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی نے یہ بھی فرمایا :
{ بلاشبہ زقوم ( تھوہر ) کا درخت گنہگار کا کھانا ہے ، جو تلچھٹ کی طرح ہے اور کھولتا رہتا ہے جس طرح کہ تيز گرم پانی ہو ، اسے پکڑ لو پھر گسیٹتے ہوۓ جہنم کے درمیان پہنچاؤ پھر اس سرپر سخت گرم پانی کا عذاب بہاؤ ، ( اسے کہا جاۓ گا ) چکھتا جا توتوبڑا ہی عزت اور وقارواکرام والا تھا ، یہی وہ چیز ہے جس میں تم شک کیا کرتے تھے } الدخان ( 43 - 50 ) ۔
اور اللہ تبارک وتعالی نے یہ بھی فرمایا :
{ کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا زقوم ( تھوہر) کا درخت ، جسے ہم نے ظالموں کے لیے سخت آزمائش بنا رکھا ہے ، بلاشبہ وہ درخت جہنم کی جڑمیں سے نکلتا ہے ، جس کے خوشے شیطانوں کے سروں جیسے ہوتے ہیں ، جہنمی اسی درخت سے کھائيں گے ، اور اسی سے پیٹ بھریں گے ، پھر اس پر گرم جلتے پانی کی ملونی ہوگي ، پھر ان کا جہنم کی آگ کی طرف لوٹنا ہوگا } الصافات ( 62 - 68 ) ۔
وہ درخت جس کے نیچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے موت اورعدم فرار پربعیت لی تھی :
جس طرح کہ حدیبیہ کے مقام پریہ واقع اس وقت پر پیش آیا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کی خیانت کی خبر پہنچی ، اور یہی وہ درخت ہے جس کا قرآن مجید بھی ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے :
{ یقینا اللہ تعالی مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے آپ سے بیعت کر رہے تھے } الفتح ( 18 ) ۔
وہ درخت جس کے پاس کھڑے ہوکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیا کرتے تھے :
جابررضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن ایک درخت یا کھجور کے پاس کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے ، توایک انصاری عورت یا مرد کہنے لگا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم آپ کے لیے ایک منبر نہ بنا دیں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرتم چاہو تو بنا سکتے ہو توصحابہ اکرام نے ایک منبر تیار کردیا توجمعہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پرچڑھ کر خطبہ ارشاد فرمانے لگے تووہ کھجور کا تنا بچے کی طرح بلک بلک کرورنے لگا ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لاۓ اور اسے اپنے سینہ سے لگایا تواس کی وہ آواز تھم گئ راوی کہتے ہیں کہ جب بھی وہ اپنے پاس ذکر سنتا تووہ روتا تھا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر( 3319 ) ۔
وہ درخت جس کے پاس اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے کلام کی اور انہیں نبوت دی :
فرمان باری تعالی ہے :
{ پس جب وہاں پہنچے تو اس بابرکت زمین کے میدان دائيں کنارے کے درخت میں سے آوازديۓ گۓ کہ اے موسی ( علیہ السلام ) یقینا میں ہی سارے جہانوں کا رب اللہ ہوں } القصص ( 30 ) ۔
وہ درخت جس سے آدم اورحواء علیہما السلام کومنع کیا گيا تھا :
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اورہم نے حکم دیا کہ اے آدم تم اورتمہاری زوجہ جنت میں رہو پھر جس جگہ سے چاہودونوں کھاؤ اور اس درخت کے پاس مت جاؤ ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہوجاؤ گے } الاعراف ( 19 ) ۔
اوراللہ تبارک وتعالی نے کچھ اس طرح فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے :
{ لیکن شیطان نے اسے وسوسہ ڈالا ، کہنے لگا کہ کیا میں تجھے دائمی زندگی کا درخت اوربادشاہت نہ بتلاؤں کہ جوکبھی پرانی نہ ہو } طہ ( 120 ) ۔
اورفرمان باری تعالی ہے :
{ توان دونوں کوفریب سے نیچے لے آیا ، پس ان دونوں نے جب درخت کوچکھا تو دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پردہ ہوگئيں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑجوڑ کر رکھنے لگے ، اوران کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کواس درخت سے منع نہیں کرچکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا تھا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے ؟ } الاعراف ( 22 ) ۔
ارزن کا درخت اللہ تعالی نے جس کے ساتھ کافر کی مثال بیان فرمائ :
ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( مومن کی مثال اس کھیتی جیسی ہے جسے ہروقت ہوا ادھرادھر کرتی رہتی ہے اورمومن بھی ہر وقت اسے مصائب آتے رہتے ہیں ، اور منافق کی مثال ارزن کے درخت کی طرح ہے جوہلتا جلتا نہیں حتی کہ اس کی کٹائ کردی جاۓ ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 5024 ) ۔
اورایک روایت میں ہے کہ :
( کافرکی مثال ارزن کی طرح ہے جواپنی جڑوں پر تنا رہتا ہے اسے کوئ چیز ادھر ادھر نہیں کرتی حتی کہ وہ ایک دفع ہی اکھیڑا جاتا ہے ) ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ ( الارزۃ ) اہل لغۃ کہتے ہیں کہ یہ درخت معروف ہے جسے ارزن کہا جاتا اور صنوبر کے مشابہ ہوتا ہے جو کہ شام اور ارمن میں پایا جاتا ہے ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ( تستحصد ) یعنی وہ تغیر اختیار نہیں کرتا بلکہ ایک بارہی اکھیڑا جاتا ہے اس کھیتی کی طرح جو خشک ہوچکی ہو ۔
اورالمجذبہ کا معنی ثابت اورسیدھا تنا ہوا ہے اور انعجاف کا معنی اقلاع یعنی اکھیڑنا ہے ۔
علماء کا کہنا ہےکہ حدیث کا معنی یہ ہے کہ مومن کواس کے بدن یااہل وعیال یا پھر مال میں مصائب کا شکار رہتا ہے ، اوریہ سب کچھ اس کے گناہ کا کفارہ درجات کی بلندی کا باعث بنتے ہیں ، لیکن اس کے مقابلے میں کفارمصائب کا شکار کم ہوتے ہیں ، اوراگر کچھ نہ کچھ اسے مصائب آبھی جائيں تووہ اس کے گناہوں کا کفارہ نہیں بنتے بلکہ وہ روز قیامت اسی طرح مکمل گناہوں سے حاضر ہوگا ۔ شرح صحیح مسلم للنووی ۔
وہ درخت جو رؤیا صالحہ میں آیا اور اس نے وہی دعا پڑھی جو سجدہ تلاوت میں پڑھی جاتی ہے :
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورکہنے لگا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے کل رات نیند میں ایک خواب دیکھا کہ میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں میں نے سجدہ کیا تودرخت نے بھی میرے سجدے کی بنا پرسجدہ کیا میں نے سنا تووہ کہہ رہا تھا :
اے اللہ میرے لیے اپنے پاس اس کا اجر لکھ دے اوراس کے سبب سے میرے گناہ معاف کردے ، اور اپنی طرف سے میرے لیے یہ زخیرہ بنا دے اور مجھ سے بھی اسی طرح قبول فرما جس طرح کہ اپنے بندے داود علیہ السلام سے قبول کیا تھا ۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ والی آيت پڑھی اورسجدہ فرمایا ، ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہی کلمات جو درخت نے کہے تھے اوراس آدمی نے بتاۓ تھے وہ سجدہ میں اسی طرح کہہ رہے تھے ۔ اسے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے سنن ترمذی ( 528 ) میں روایت کیا ہے ۔
وہ دودرخت جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قضاۓ حاجت کرتے وقت انہيں چھپانے کے لیے آپس میں مل گۓ تھے :
یہ قصہ صحیح مسلم میں امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے جابر رضي اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا ہے وہ بیان کرتے ہيں :
( ہم ایک وسیع وعریض وادی میں اترے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم قضاۓ حاجت کے لیے تشریف لے گۓ تومیں برتن میں پانی لے کر ان کے پیچھے چلا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا توانہیں چھپنے کے لیے کچھ بھی نظر نہ آیا تو وادی کے دونوں کناروں میں دو درخت تھے آّپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کی طرف گۓ اوراس کی شاخ پکڑ کرکہنے لگے اللہ تعالی کے حکم سے میرے پیچھے چل تووہ نکیل والے اونٹ کی طرح ان کے پیچھے چلنے لگا جیسے اسے کے چلانے والا اس سے کنٹرول کرتا ہو یہاں تک کہ وہ دوسرے درخت کے پاس آگۓ تواس کی شاخ پکڑ کرکہنے لگے اللہ تعالی کے حکم سے میرے پیچھے چل تووہ بھی ان کے پیچھے چلنے لگا حتی کہ وہ درمیانی جگہ پر آگۓ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے حکم سے مجھ پر آپس میں مل جاؤ تو وہ دونوں آپس میں مل گۓ ، جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ میں اس ڈرسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومیرا علم نہ ہوجاۓ تووہ اور بھی زيادہ دور ہوجائيں ۔
محمد بن عباد کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ دور ہوجائيں تومیں وہیں بیٹھ کر آپنے آپ سے باتیں کرنے لگا تو اچانک میری نظر پڑی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لارہے تھے اور دونوں درخت اپنے اپنے تنے پر کھڑے ہو کر علیحدہ ہوچکے تھے ۔) صحیح مسلم حدیث نمبر( 5328 )۔
ایسے درخت جن کا پھل خبیث اور گندی بدبو رکھتا ہے اور مسلمانوں کویہ پھل کھا کرمسجد کے قریب جانے سے منع فرمادیا :
جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جس نے بھی اس درخت سے پہلے تولہسن کہا اورپھر کہا کہ جس نے لہسن و بصل اور کراث کھایا تووہ ہماری مساجد کے قریب نہ آۓ کیونکہ فرشتے بھی اس چیزسے تکلیف محسوس کرتے ہیں جس سے انسان تکلیف محسوس کرتا ہے ۔ سنن نسائ حدیث نمبر ( 700 ) ۔
وہ درخت جویھودیوں کومسلمانوں کے لیے ظاہر کرے گا تا کہ آخری زمانے میں انہیں قتل کیا جاۓ لیکن غرقد کا درخت انہیں چھپاۓ گا :
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :
قیامت اس تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ مسلمان یھودیوں سے قتال کرکے انہیں قتل نہ کردیں حتی کہ یھودی درخت اورپتھر کے پیچھے چھپیں گے توہردرخت اور پتھر پکار کر کہے گا اے مسلمان میرے پیچھے یھودی چھپا ہوا ہے آ کراسے قتل کردو لیکن غرقد کا درخت یہ کام نہیں کرے گا اس لیے کہ وہ یھودیوں کے درختوں میں سے ہے ۔ یہ حدیث صحیح اور امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے روایت کی ہے ۔
یہ کچھ درختوں کے بارہ میں معلومات تھیں جو کہ کتاب وسنت میں وارد ہوۓ ہیں جس میں بہت ساری نصحیت وعبرتیں اور مثالیں ہیں ۔
اللہ تعالی سے ہم دعا گو ہيں کہ وہ اس کے ساتھ ہمیں نفع سے نوازے ، آمین یا رب العالیمن۔
واللہ تعالی اعلم .