نبى كريم صلى اللہ عليہ كى بيٹيوں كا اللہ كے دشمن ابو لہب كى بيٹيوں سے نكاح ميں اشكال
زمرے
مصادر
Full Description
نبى كريم ﷺ كى بيٹيوں كا اللہ كے دشمن ابو لہب كى بيٹيوں سے نكاح ميں اشكال
استشكل تزويج النبي ﷺ ابنتيه لابني أبي لهب وهو عدو الله !
[ أردو - اردو - urdu ]
شیخ محمد صالح المنجد
ترجمہ: اسلام سوال وجواب ویب سائٹ
تنسیق: اسلام ہا ؤس ویب سائٹ
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
تنسيق: موقع islamhouse
2013 - 1434
نبى كريم صلى اللہ عليہ كى بيٹيوں كا اللہ كے دشمن ابو لہب كى بيٹيوں سے نكاح ميں اشكال
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اپنى دو بيٹيوں كا اللہ كے دشمن ابو لہب كے بيٹوں سے نكاح كرنے ميں كيا حكمت ہے كيا ابو لہب اسلام اور مسلمانوں كا دشمن نہ تھا، اور كيا اس كے دونوں بيٹے كافر نہ تھے ؟
الحمد للہ:
اول:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى چار بيٹياں تھى اور ان كى ترتيب كچھ اس طرح ہے:
زينب، رقيہ ام كلثوم اور فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہن.
ابو عمر بن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" دل اس پر مطمئن ہوتا ہے جو روايات تواتر كے ساتھ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيٹيوں كى ترتيب ميں وارد ہے وہ كچھ اس طرح ہيں: پہلى بيٹى زينب اور دوسرى رقيہ اور تيسرى ام كلثوم اور چوتھى فاطمۃ الزہراء رضى اللہ تعالى عنہن ہيں " انتہى
ديكھيں: الاستيعاب ( 612 ).
رقيہ رضى اللہ تعالى عنہا كى شادى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو لہب كے بيٹے عتبہ سے كى تھى "
اور ام كلثوم رضى اللہ تعالى عنہا كى شادى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو لہب كے دوسرے بيٹے عتيبہ سے كى تھى.
اور سيرت ميں آيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ان دونوں بيٹيوں كو ان كى رخصتى اور دخول سے قبل ہى طلاق ہو گئى تھى، كيونكہ جب سورۃ لہب نازل ہوئى تو اللہ كے دشمن ابو لہب نے اپنے بيٹوں كو انہيں طلاق دينے كا حكم ديا تھا.
ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" مصعب وغيرہ اہل نسب كا كہنا ہے:
رقيہ رضى اللہ تعالى عنہا عتبہ بن ابو لہب كى بيوى تھى اور اس كى بہن ام كلثوم رضى اللہ تعالى عنہا عتيبہ كى بيوى تھي اور جب سورۃ لہب " تبت يدا ابى لہب " نازل ہوئى تو ان كے باپ ابو لہب اور ان كى ماں نے دونوں بيٹوں كو كہا كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى بيٹيوں كو چھوڑ دو، اور ابو لہب كہنے لگا: اگر تم محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى بيٹيوں كو نہ چھوڑو تو ميرا سر تم دونوں كے سروں سے حرام ہے، تو انہوں نے دونوں كو طلاق دے دى " انتہى
ديكھيں: الاستيعاب فى معرفۃ الاصحاب ( 594 ).
پھر عثمان بن عفان رضى اللہ تعالى عنہ نے مكہ ميں رقيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے شادى كى اور رقيہ رضى اللہ عنہا نے ان كے ساتھ حبشہ كى طرف ہجرت كى، اور وہاں ان كا بچہ بھى پيدا ہوا جس كا نام عبد اللہ ركھا، اور عثمان رضى اللہ تعالى عنہا كى ان كى نسب سے ابو عبد اللہ كنيت تھى.
اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہجرى كے پہلے سال بدر جانے لگے تو ان كى بيٹى رقيہ بيمار تھيں، اس ليے عثمان رضى اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم سے پيچھے رہے اور اس سال ہى رقيہ كى اسى بيمارى كى وجہ سے وفات ہو گئى.
پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عثمان رضى اللہ تعالى عنہ سے ام كلثوم رضى اللہ تعالى عنہا كى شادى كى، اور ان كا نكاح تين ہجرى ربيع الاول كے مہينہ ميں ہوا، اور ان كى رخصتى جمادى الاخرۃ ميں اسى سال ہوئى، اور ان سے كوئى اولاد نہيں تھى، يہ نو ہجرى ميں فوت ہوئيں اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى نماز جنازہ پڑھائى.
دوم:
رہا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيٹيوں كا ابو لہب كے بيٹوں سے شادى كرنے ميں اشكال پيدا ہونا تو اس اشكال كى كوئى وجہ سمجھ نہيں آتى، كيونكہ ابتدا ميں مسلمان شخص كى كافرہ عورت سے اور مسلمان عورت كى كافر مرد سے شادى حرام نہ تھى، بلكہ يہ تو بعد ميں حرام كى گئى، اور جب يہ آيت نازل ہوئى تو مسلمانوں نے كافر عورتوں كو چھوڑ ديا:
فرمان بارى تعالى ہے:
﴿ اے ايمان والو جب تمہارے پاس مومن عورتيں ہجرت كر كے آئيں تو تم ان كا امتحان لو، دراصل ان كے ايمان كو بخوبى جاننے والا تو اللہ ہى ہے، ليكن اگر وہ تمہيں ايمان والياں معلوم ہوں تو اب تم انہيں كافروں كى طرف واپس نہ كرو يہ ان كے ليے حلال نہيں اور نہ ہى وہ ان كے ليے حلال ہيں، اور جو خرچ ان كافروں كا ہوا ہے وہ انہيں ادا كر دو، ان عورتوں كو ان كے مہر دے كر ان سے نكاح كر لينے ميں تم پر كوئى گناہ نہيں اور كافر عورتوں كى ناموس اپنے قبضہ ميں نہ ركھو، اور جو كچھ تم نے خرچ كيا ہو وہ مانگ لو اور جو كچھ ان كافروں نے خرچ كيا ہو وہ بھى مانگ ليں، يہ اللہ كا فيصلہ ہے جو تمہارے درميان كر رہا ہے اور اللہ تعالى بڑے علم اور حكمت والا ہے ﴾الممتحنۃ ( 10 ).
اور اصل ميں كافر عورتوں سے نكاح كى ابتدا كى حرمت اس فرمان بارى تعالى ميں پائى جاتى ہے:
﴿ اور تم مشرك عورتوں سے اس وقت شادى مت كرو جب تك وہ مومن نہ ہو جائيں ﴾البقرۃ ( 221 ).
ان كے ليے كافر عورتوں ميں سے صرف اہل كتاب ميں سے يہودى اور عيسائى عورتيں ہى مباح كى ہيں، اور يہ اباحت بعد ميں درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں بيان ہوئى:
﴿ سب پاكيزہ چيزيں آج تمہارے ليے حلال كى گئيں اور اہل كتاب كا ذبيحہ تمہارے ليے حلال ہے، اور تمہارا ذبيحہ ان كے ليے حلال ہے، اور پاكدامن مسلمان عورتيں اور جو لوگ تم سے پہلے كتاب ديے گئے ہيں ان كى پاكباز دامن عورتيں بھى حلال ہيں، جبكہ تم ان كے مہر ادا كرو، اس طرح كہ ان سے باقاعدہ نكاح كرو، يہ نہيں كہ علانيہ زنا كرو، يا پھر پوشيدہ بدكارى كرو، منكرين ايمان كے اعمال ضائع اور اكارت ہيں اور آخرت ميں وہ خسارہ پانے والوں ميں سے ہيں ﴾المآئدۃ ( 5 ).
قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
كفار مرد مسلمان عورتوں سے اور مسلمان مرد مشرك عورتوں سے شادى كيا كرتے تھے، پھر اس آيت ميں اسے منسوخ كر ديا گيا، چنانچہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے اس وقت دو مشرك عورتوں كو مكہ ميں طلاق دے دى:
ان ميں سے ايك ابو اميہ كى بيٹى قريبہ تھى، جس سے معاويہ بن ابى سفيان نے نكاح كر ليا اور يہ دونوں مشرك تھے.
اور دوسرى عمرو الخزاعى كى بيٹى ام كلثوم تھى ـ ام عبد اللہ بن المغيرہ ـ اس سے ابو جہم بن حذافہ نے شادى كر ليى اور يہ دونوں بھى مشرك تھے " انتہى
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 18 / 65 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ:
1 ـ مسلمان كى كافر عورت اور مسلمان عورت كى كافر مرد سے ابتدا اسلام ميں شادى كرنا مباح تھا.
2 ـ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو لہب كے بيٹوں سے اپنى بيٹيوں كى شادى دعوت كے ابتدائى ايام ميں كى تھى.
3 ـ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دعوت كا اعلان كيا تو ابو لہب كو غصہ آيا اور اس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كى اور ان سے دشمنى كا اعلان كر ديا تو اللہ عزوجل نے ابو لہب اور اس كى بيوى كے متعلق سورۃ لہب نازل فرمائى " تبت يدا ابى لہب و تب " چنانچہ ابو لہب اور ام جميل نے اپنے بيٹوں سے كہا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيٹيوں كو طلاق دے دو.
4 ـ طلاق رخصتى و دخول سے قبل ہوئى جس ميں ابو لہب كا غضب اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى عزت تھى.
5 ـ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيٹى زينب رضى اللہ تعالى عنہا ابو العاص كے ساتھ تھى، اور ابو العاص كے كفر كى بنا پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دونوں ميں عليحدگى كرا دى، پھر جب وہ اسلام لائے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى بيوى كو واپس كر ديا.
6 ـ كافر عورتوں سے اور كافر مردوں سے شادى كرنا ايك عام امر تھا، وہاں كوئى ايسى نص نہ تھى جو اس سے منع كرتى جس كو اس كا علم ہو اس كے ہاں اس ميں كوئى اشكال نہيں.
واللہ اعلم .