×
میں نے صحیح بخاری میں ایک حدیث پڑھی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ جب دجال آئے کا تو مدینہ کے آٹھ دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے پہرہ دے رہے ہوں گے جو کہ دجال کو مدینہ میں داخل ہونے سے روکیں گے ۔ میرے علم کے مطابق تو مدینے کے اس وقت دروازے نہیں بلکہ راستے ہیں ۔ اور میرا سوال یہ ہے کہ : کیا حدیث میں کلمہ ابواب راستے پر تو نہیں بولا گیا ؟ تو اگر جواب ہاں میں ہو تو مدینہ کو جانے والے راستے کتنے ہیں ؟

    دجال کے دخول کے وقت مدینے کے سات دروازے

    للمدينة سبعة أبواب عند دخول الدجال

    [ اردو- أردو - urdu ]

    شیخ محمد صالح المنجد

    ترجمہ: اسلام سوال وجواب ویب سائٹ

    تنسیق: اسلام ہا ؤس ویب سائٹ

    ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
    تنسيق: موقع islamhouse

    2012 - 1434

    دجال کے دخول کے وقت مدینے کے سات دروازے

    میں نے صحیح بخاری میں ایک حدیث پڑھی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ جب دجال آئے کا تو مدینہ کے آٹھ دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے پہرہ دے رہے ہوں گے جو کہ دجال کو مدینہ میں داخل ہونے سے روکیں گے ۔

    میرے علم کے مطابق تو مدینے کے اس وقت دروازے نہیں بلکہ راستے ہیں ۔

    اور میرا سوال یہ ہے کہ :

    کیا حدیث میں کلمہ ابواب راستے پر تو نہیں بولا گیا ؟ تو اگر جواب ہاں میں ہو تو مدینہ کو جانے والے راستے کتنے ہیں ؟

    الحمد للہ

    وہ حدیث جو کہ سائل نے نقل کی ہے اس کے نقل کرنے میں غلطی ہوئی ہے تو حدیث امام بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب فضائل المدینہ حدیث نمبر (1879) اور اسی طرح کتاب الفتن حدیث نمبر (7125) میں ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

    (مدینہ میں مسیح الدجال کا رعب داخل نہیں ہو سکے گا اور اس وقت مدینہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے ہوں گے)

    ابن جحر عسقلانی رحمہ اللہ تعالی نے فتح الباری میں اس حدیث پر تعلیقا کلام کرتے ہوئےفرمایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ( اس وقت مدینہ کے سات دروازے ہوں گے) قاضی عیاض کا قول ہے کہ یہ اس کی تائید کرتی ہے کہ اس سے مراد انقاب ( داخل ہونے کے راستے) ہیں جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد ہے ۔

    صحیح بخاری میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

    مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ تو طاعون اور نہ ہی دجال داخل ہو سکتا ہے۔

    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری ( 4/ 96) میں فرمایا ہے کہ انقاب نقب کی جمع ہے ابن وہب کا قول ہے کہ اس سے مراد داخل ہونے کے راستے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ابواب یعنی دروازے ہیں اور نقب اصل میں دو پہاڑوں کے درمیان راستے کو کہتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انقاب وہ راستے ہیں جن پر لوگ چلتے ہوں اللہ تعالی کا یہ فرمان اسی میں سے ہے :

    (ونقبوا فی البلاد) اور انہوں نے شہروں میں راستے بنا لۓ)

    تو یہ سب کچھ حافظ ابن جحر رحمہ اللہ تعالی نے ابواب پر تعلیق کرتے ہوئےذکر کیا ہے تو باقی معاملہ رہتا ہے اس میں اجتہاد ہے تو اس کا احتمال ہے کہ مثلا :

    1- ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں جب دجال آئے تو مدینہ کے دروازے ہوں ، اگرچہ ہمارے دور میں دروازے نہیں ہیں ۔

    2- یہ کہ دروازوں سے مراد داخل ہونے کے مین اور بڑے راستے ہوں اگرچہ وہ دروازے کی شکل میں نہ ہوں ۔

    3- یہ کہ فرشتوں کی ذمہ داری ہو کہ وہ اس کی سات طرفوں اور سائڈوں سے حفاظت کریں اور ہر طرف دو فرشتے ہوں تو ہر ایک طرف کو دروازے سے تعبیر کر دیا گیا ہے جو کہ عرب کی لغت میں جائز ہے ۔

    واللہ تعالی اعلم .