×
زیر نظر فتوى میں ضرورت کی تکمیل یا مصیبت سے خلاصی پانے وغیرہ کی غرض سے سورہ "یس" کی مخصوص انداز سے تلاوت کرنے کے بارے میں شرعی حکم بیان کیا گیا ہے.

    حاجت وضرورت اورمصیبت سے چھٹکارا پانے کیلئے سورہ یس کی تلاوت کرنا

    ﴿ قراءة عدية يس لقضاء الحاجات وتفريج الكربات﴾

    [ أردو- الأردية - Urdu]

    محمد صالح المنجد

    مراجعہ: شفیق الرحمن ضیاء اللہ مد نی

    2009 - 1430

    ﴿ قراءة عدية يس لقضاء الحاجات وتفريج الكربات﴾

    ((باللغة الأردية))

    محمد صالح المنجد

    مراجعة : شفيق الرحمن ضياء الله المدني

    2009 - 1430

    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    حاجت وضرورت اورمصیبت سے چھٹکارا پانے کیلئے سورہ یس کی تلاوت کرنا

    سوال: برائے مہربانی ہمیں ایسے طریقہ کے متعلق معلومات فراہم کریں جوہم میں وراثتاً چلا آ رہا ہے اورہم نے یہ بہت سارے مشائخ اورعلماء سے سوریا میں سیکھا ہے ,میں یقینی طورپراسکے صحیح ہونے کا علم نہیں رکھتا,حاجات وضرورت پوری کرانے اورہمارے معاشرے میں بہت ساری خواہشات ورغبا ت پوری کرانے کے اس طریقہ کا التزام کیا جاتا ہے اسکے اسلوب میں ایک یہ بھی ہے کہ : اکتالیس مرتبہ سورہ یس انفرادی یا اجتماعی طورپرتقسیم کرکےتلاوت کی جاتی ہے یا پھر بعض آیات تکرارکے سا تھ معین تعداد میں پڑھی جاتی ہے اوربعد میں ایک معین دعا بھی کی جاتی ہے, یا پھرنبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم پرمعین درود (دس ہزاربار) انفراداً یا اجتماعی طورپرآپس میں تقسیم کرکے پڑھتے ہیں کہ ہرایک اسمیں سے کچھ حصہ پڑھتا ہے.

    اکثرلوگوں سے میں نے کہا کہ یہ صحیح نہیں یا پھریہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ سنت نہیں ہے تووہ بہت شدت کے ساتھ اسکا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسکے بہت فوائد ہیں اوریہ تجربہ شدہ ہے.

    الحمد للہ:

    آپ نے بيان كيا ہے كہ معين تعداد ميں سورۃ يس وغيرہ كى تلاوت يا پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر معين تعداد ميں انفرادى يا اجتماعى درود پڑھنا تا كہ مشكلات حل ہوں اور ضروريات پورى كى جا سكيں شريعت ميں اس كى كوئى دليل نہيں ملتى، اور يہ بدعات ميں شامل ہوتى ہے.

    نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

    " جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نيا كام نكالا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "

    صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).

    اہل علم كے ہاں يہ بات طے شدہ ہے كہ عبادت اصلا اور وصفا اور جگہ و وقت ميں مشروع ہونى چاہيے، اور جس عدد و كيفيت اور ہيئت كى شرعى دليل ثابت نہ ہو اس كا التزام كرنا بدعت شمار ہو گا.

    شاطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

    تو پھر بدعت كى تعريف يہ ہوئى : دين میں ایجاد کردہ نیا طريقہ جو شريعت کے مشابہ ہو، اس پر چلنے سے اللہ كى عبادت ميں مبالغہ كرنا مقصود ہو،تو يہ بدعت كہلاتا ہے...

    اور اسی میں سے معین کیفیت وہیئت کا التزام کرنا ہے

    ، مثلا ايك ہى آواز ميں اجتماعى ذكر كرنا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ولادت باسعادت كے دن كو جشن منانا اور اسے عيد ماننا اور اس طرح كے دوسرے امور.

    اور اسی میں سے معين عبادات كا معين اوقات ميں التزام كرنا بهی ہے جن كى تعيين شريعت ميں نہیں ملتى ، مثلا پندرہ شعبان كو نصف شعبان كا روزہ ركھنا، اور اس رات قيام كرنا " انتہى

    ديكھيں: الاعتصام ( 1 / 37 - 38 ).

    اور يہ (عمل) لوگوں كے طريقہ ميں شامل ہے اور وراثت ميں ملا ہے، يا پھر اس پر بعض نتائج مرتب ہوتے ہيں اس كى مشروعيت پر دلالت نہيں كرتا، بلكہ اقوال و اعمال كا معيار و ميزان تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اعمال و اقوال ہيں اس ليے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اقوال و اعمال كے موافق ہو اسے قبول كيا جائيگا، اور جو مخالف ہو وہ مردود ہے چاہے اس كا قائل و عامل كوئى بھى ہو.

    يہاں يہ كہا جائيگا كہ:

    اگر يہ كوئى خير و بھلائى ہوتى تو ہم سے اس كام ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام سبقت لے جاتے خاص كر جبكہ اس كا مقتضى پايا جاتا تھا، كيونكہ بہت سارے صحابہ كرام اذيت و ظلم كا شكار ہوئے، ليكن اس كے باوجود كسى سے ثابت نہيں كہ كسى ايك صحابى نے ايسا كيا ہو، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى اس طرف راہنمائى فرمائى.

    اور خير و بھلائى تو صرف سلف رحمہ اللہ كى اتباع و پيروى ميں ہے، اور ہر قسم كا شر و برائى بعد ميں آنے والوں كى بدعات ميں ہے.

    حاصل يہ ہوا كہ ان بدعات سے اجتناب كرنا اور دور رہنا متعين ہو جاتا ہے، اور مشروع اذكار و دعاؤں كا التزام كرنا (ضرورہوجاتا ہے) جنہيں اللہ تعالى نے حاجات پورى كرنے اور رغبات كے حصول كا سبب بنايا ہے.

    اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: ( أَمْ مَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلا مَا تَذَكَّرُونَ ) النمل/62 ،

    " بے كس و لاچار كى پكار كو جب وہ پكارے تو كون قبول كر كے اس كى سختى كو دور كرتا ديتا ہے ؟ اور تمہيں زمين كا خليفہ بنتا ہے، كيا اللہ تعالى كے ساتھ كوئى اور معبود ہے ؟ تم بہت كم نصيحت و عبرت حاصل كرتے ہو"- (النمل : 62 )

    اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان اس طرح ہے:

    ( وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ) البقرة/186

    "جب ميرے بندے ميرے بارے ميں آپ سے دريافت كريں تو آپ كہہ ديں كہ ميں بہت ہى قريب ہوں ہر پكارنے والے كى پكار كو جب كبھى وہ مجھے پكارے قبول كرتا ہوں، اس ليے لوگوں كو بھى چاہيے كہ وہ ميرى بات مان ليا كريں اور مجھ پر ايمان ركھيں، يہى ان كى بھلائى كا باعث ہے" (البقرۃ :186 ).

    اور ترمذى و ابو داود نے بريدہ اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو دعا كرتے ہوئے سنا وہ دعا ميں كہہ رہا تھا:

    ( اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ الأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ )

    "اے اللہ! ميں تجھ سے سوال كرتا ہوں اور يقينا ميں گواہى ديتا ہوں كہ يقينا تو ہى معبود برحق ہے تيرے علاوہ كوئى اور معبود نہيں، تو احد و صمد اكيلا و يكتا اور بے نياز ہے جو نہ كسى سے جنا گيا ہے اور نہ ہى اس نے كسى كو جنا ہے اور اس كا كوئى ہمسر نہيں " -

    نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

    " اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے اس نے اللہ كے اسم اعظم كا واسطہ دے كر دعا مانگى ہے جس كے ساتھ جب دعا كى جائے تو قبول ہوتى ہے "

    سنن ترمذى حديث نمبر ( 3475 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 1493 ).

    ابن ماجہ اور ترمذى نے انس رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:

    " نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسجد ميں داخل ہوئے تو ايك شخص نماز كے بعد دعا كرتے ہوئے يہ كہہ رہا تھا:

    " اللَّهُمَّ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ ذَا الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ "

    اے اللہ! تيرے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، آسمان و زمين كے پيدا كرنے والے، يا ذالجلال و الاكرام"

    تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

    " كيا تمہيں معلوم ہے كہ اس نے كس كے ساتھ دعا كى ہے ؟

    اس نے اللہ كے اسم اعظم كے ساتھ دعا كى ہے يہ وہ اسم اعظم ہے جس كے ساتھ دعا كى جائے تو دعا قبول ہوتى ہے اور جب سوال كيا جائے تو طلب پورى ہوتى ہے "

    سنن ترمذى حديث نمبر ( 3544 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3858 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح كہا ہے.

    واللہ اعلم .

    الاسلام سوال و جواب