مريض کونسی بیماری میں روزہ چھوڑ سکتا ہے ؟
اس مادہ کے ترجمے
زمرے
مصادر
Full Description
مريض کونسی بیماری میں روزہ چھوڑ سکتا ہے ؟
﴿ ما هو المرض الذي يبيح للصائم أن يفطر؟ ﴾
[ أردو- الأردية - urdu]
فتوى
محمد صالح المنجد حفظہ اللہ
مراجعہ
شفیق الرحمن ضیاء اللہ مد نی
ناشر
2009 - 1430
﴿ ما هو المرض الذي يبيح للصائم أن يفطر؟ ﴾
(باللغة الأردية)
فتوى
محمد صالح المنجد حفظه الله
مراجعة
شفيق الرحمن ضياء الله المد ني
الناشر
2009 - 1430
مريض کونسی بیماری میں روزہ چھوڑ سکتا ہے ؟
وه كون سا مرض ہے جسکی وجہ سے مریض رمضان کے روزے چھوڑسکتا ہے؟ اوركيا اسكے لئے جائزہے کہ وہ کسی بھی مرض کی وجہ سے روزہ نہ رکھے اگرچہ وہ بیماری تھوڑی سی ہی کیوں نہ ہو؟
الحمد للہ :
اکثر علماء کرام جن میں آئمہ اربعہ بھی شامل ہیں کا مسلک یہ ہے کہ مریض کے لیے اس وقت تک رمضان کے روزے چھوڑنے جائز نہيں جب تک کہ مرض شدید قسم کا نہ ہو ۔
اورشدید مرض سے مراد ہے کہ :
1 - روزے کی وجہ سے مرض زیادہ ہوجائے ۔
2 - روزے کی وجہ سے شفایابی میں تاخیر ہوجائے ۔
3 - روزے کی وجہ سے اسے شدید قسم کی مشقت ہو اگرچہ مرض کی زيادتی اورشفایابی میں تاخیر نہ بھی ہو ۔
4 - علماء کرام نے اس کے ساتھ روزے کے سبب سے مرض پیدا ہونے کے خدشہ کو بھی ملحق کیا ہے ۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المغنی میں کہتے ہيں :
( روزہ نہ رکھنا اس مرض سے مباح ہوتا ہے جومرض شدید ہو اورروزہ رکھنے سے اس میں زيادتی ہو یا پھر اس مرض سےشفایابی میں تاخیر ہو ۔
امام احمد رحمہ اللہ تعالی سے کہا گیا کہ مریض کب روزہ نہيں رکھےگا ؟
توان کا جواب تھا :
جب وہ روزہ رکھنے کی استطاعت نہ رکھے ، تو ان سے کہا گيا کہ مثلا بخار ؟ توامام امحد کہنے لگے بخار سے زيادہ شدید مرض کونسا ہے ! ۔۔۔۔
اوروہ صحیح شخص جوروزہ کی وجہ سے مرض کا اندیشہ رکھے اس مریض کی طرح ہے جوروزہ کی وجہ سے مرض کے زيادہ ہونے کا خدشہ رکھتا ہو اسے بھی روزہ چھوڑنے کی ا جازت ہے ، کیونکہ مریض کے لیے روزہ چھوڑنا اس لیے مباح کیا گيا ہے کہ روزہ کی وجہ سے مرض زيادہ اورلمبا ہوجائے لھذا مرض کا خوف بھی اسی معنی میں آتا ہے )
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 4 / 403 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المجموع میں کہتے ہیں :
( وہ مريض جو اپنے ایسے مرض کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے جس کے زائل ہونے کی امید نہ ہو اسے روزہ رکھنا لازم نہیں ۔۔۔ اوراسی طرح اگر روزہ رکھنے سے ظاہری مشقت ملحق ہوتی ہو اس میں یہ شرط نہيں کہ وہ اس حد تک ختم ہوجائے جس میں روزہ رکھنا ممکن نہ ہو ، بلکہ ہمارے اصحاب کا کہنا ہے کہ : روزہ چھوڑنے کی شرط یہ ہے کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے مشقت ہوتی ہوجس کا متحمل نہ ہوا جائے ) اھـ دیکھیں المجموع ( 6 / 261 ) ۔
اوربعض علماء کرام کا کہنا ہے کہ : ہر مریض کےلیے روزہ چھوڑنا جائز ہے ، اگرچہ روزے کی وجہ سے مشقت نہ بھی ہوتی ہو ۔
یہ قول شاذ ہے جسے جمہور علماء کرام نے رد کردیا ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
تھوڑی بہت مرض جس سے ظاہری مشقت نہ ہوتی ہو اس کی وجہ سے ہمارے ہاں بغیر کسی اختلاف كے روزہ چھوڑنا جائز نہيں ۔ ا ھـ
دیکھیں المجموع ( 6 / 261 ) ۔
اورشيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
" روزہ کی وجہ سے جومریض متاثر نہ ہوتا ہو مثلا تھوڑا سا زکام ، یا پھر ہلکی سے سردرد ، اور داڑھ کی درد یا اس طرح کی کوئي اورہلکی پھلکی سے بیماری تواس کی وجہ سے اس کے لیے روزہ چھوڑنا حلال نہيں ۔
اگرچہ بعض علماء کرام کا کہنا ہے کہ مندرجہ ذیل آیت کی بنا پر اس کے لیے حلال ہے :
" اورجوکوئي مریض ہو" البقرۃ ( 185 ) ۔
لیکن ہم یہ کہيں گے یہ حکم علت کے ساتھ معلق ہے وہ یہ کہ مريض کےلیے روزہ ترک کرنا زيادہ بہتر ہو ، لیکن اگر وہ روزہ رکھنے سے متاثر نہ ہوتا ہو تواس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہیں بلکہ اس پر روزہ رکھنا واجب ہے "
دیکھیں الشرح الممتع ( 6 / 352 ) ۔
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب