×
سورۃ الدخان میں ذکر کی گئى رات سے کیا مقصود ہے ؟ کیا یہ شعبان والی رات ہی ہے ، یا لیلة القدر ؟ جانئے فتوی مذکورمیں.

    سورۃ الدخان میں ذکر کی گئى رات سے کیا مقصود ہے ؟

    کیا یہ شعبان والی رات ہی ہے ، یا لیلة القدر ؟

    ﴿ما هو المقصود بالليلة الخاصة الواردة في سورة الدخان؟﴾

    [ أردو- الأردية - urdu]

    فتوى

    محمد صالح المنجد حفظہ اللہ

    مراجعہ

    شفیق الرحمن ضیاء اللہ مد نی

    ناشر

    2009 - 1430

    ﴿ ماهوالمقصودبالليلة الخاصة الواردة في سورة الدخان؟ ﴾ (باللغة الأردية)

    فتوى

    محمد صالح المنجد حفظه الله

    مراجعة

    شفيق الرحمن ضياء الله المد ني

    الناشر

    2009 - 1430

    بسم الله الرحمن الرحيم

    سوال : پندرہ شعبان کی کیا اہمیت ہے ؟ کیا یہی لیلۃ القدرہے جس میں ہرشخص کے سال بھرکے انجام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ,سورۃ الدخان میں ذکر کی گئی رات سے کیا مقصود ہے ؟کیا یہ شعبان والی رات ہی ہے,یا لیلۃ القدر؟

    جواب:

    الحمد للہ
    نصف شعبان یعنی پندرہ شعبان کی رات باقی عام راتوں کی طرح ہی ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےاس کا کوئي ثبوت نہیں ملتا کہ اس رات لوگوں کے انجام ؛یا تقادیر کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔

    آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 8907 ) کے جواب کا مطالعہ ضرور کریں ۔

    اوراللہ کے فرمان:( إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (3-4) الدخان " یقینا ہم نے اسے بابرکت رات میں نازل فرمایا ہے ، بیشک ہم ڈرانے والے ہیں ، اس رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے " میں تواس سلسلے میں ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ : اس میں وارد شدہ رات کے بارہ میں اہل تفسیر نے اختلاف کیا ہے کہ یہ سال کی کون سی رات ہے ، بعض تواسے لیلۃ القدر ہی قرار دیتے ہیں ، اورقتادہ رحمہ اللہ تعالی عنہ سے یہی منقول ہے کہ اس سے مراد لیلۃ القدر ہی ہے ۔

    اوردوسرے اہل علم کا کہنا ہے کہ : نصف شعبان کی رات ہے ، لیکن اس میں صحیح قول لیلۃ القدر والا ہی ہے ، یہ ایسے ہی ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : " بے شک ہم ڈرانے والے ہیں" ۔ دیکھیں تفسیر طبری ( 11 / 221 )۔

    اوراللہ تعالی کا فرمان :

    " اس میں ہر مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں کہا ہے کہ :

    "مطلب یہ ہے کہ اس رات میں اس سال کے معاملات کومقدر کیا جاتا ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

    "اس رات میں ہر مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے"

    اوراسی سے امام نووی نے اپنی بات کی شروعات کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ : علماء کا کہنا ہے کہ لیلۃ القدر اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں فرشتے اقدار کولکھتے ہیں ، اس لیے کہ فرمان باری تعالی ہے :

    " اس میں ہرمضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے " ۔

    عبدالرزاق اوردوسرے مفسرین نے صحیح اسانید کے ساتھ اسے مجاھد ، عکرمہ اورقتادہ وغیرہ سے روایت کیا ہے ۔

    توربشتی کا قول ہے ، یہاں "القدر" دال پر جزم کے ساتھ وارد ہوئي ہے ، اگرچہ "القدر"دال پر زبر کے ساتھ شائع اورمشہور ہے جس کا معنی فیصلے کا قصد وارادہ کرنا ہے تواس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے یہ مراد نہيں بلکہ اس سے توجوفیصلے ہوچکے ہیں اس برس میں ان کا اظہار اورتجد ید مراد ہے تا کہ جوکچھ ان کی طرف بھیجا جارہا ہے وہ مقدار کے ساتھ حاصل ہو ۔

    اورلیلۃ القدر کی بہت عظيم فضیلت ہے اوراس کے لیے ہے جواس میں عمل کرے اورعبادت کرنے میں بھی کوشش کرے ۔

    اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : (إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ(1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ(2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ(3) تَنَزَّلُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ(4)سَلامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ )- سورة القدر

    " یقینا ہم نے اسے قدر والی رات میں نازل کیا ہے ،اور توکیا سمجھے کہ قدر والی رات کیا ہے ؟ قدروالی رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اس میں ہر کام کوسرانجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح جبریل علیہ السلام اترتے ہیں ، یہ رات سرا سر سلامتی کی ہوتی ہے ، اورفجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے "

    لیلۃ القدر کی فضیلت میں بہت ساری احادیث وارد ہيں جن میں مندرجہ ذیل حدیث بھی شامل ہے :

    ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ) رواه البخاري : الصوم/1768)

    "جس نے بھی لیلۃ القدر میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ، اورجس نے بھی ایمان اوراجروثواب کی نیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھے تواس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں " صحیح بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر : 1768 ) ۔

    واللہ اعلم .

    الشیخ محمد صالح المنجد