فوت شُدگان کی جانب سے قُربانی کرنا
اس مادہ کے ترجمے
زمرے
- موت اور اس کے احکام << جنائز << عبادات << فقہ
- قربانی << عید << بار بار آنے والے مواقع << الثقافة الإسلامية
- عید << بار بار آنے والے مواقع << الثقافة الإسلامية
- عام فتاوی << فتاوی << فقہ
مصادر
Full Description
فوت شُدگان کی جانب سے قُربانی کرنا
[الأُردية –اُردو Urdu–]
فتوی:شیخ محمد بن صالح العثیمین۔رحمہ اللہ۔
ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ
مراجعہ و تنسیق:عزیز الرحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ
الأُضحية عن الأموات
فتوى:الشيخ محمد بن صالح العثيمين-رحمه الله-
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
مراجعة وتنسيق: عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي
۳۶۵۹۶:فوت شُدگان کی جانب سے قُربانی کرنا
سوال : کیا میں اپنے فوت شدہ والدین کی طرف سے قربانی کرسکتاہوں ؟
بتاریخ۲۱۔۱۰۔۲۰۱۰کونشرکیا گیا
جواب:
الحمد للہ
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالیٰ کا کہنا ہے :
قربانی کی اصل یہ ہے کہ یہ زندہ لوگوں کے حق میں مشروع ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے ، اور کچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ قربانی فوت شدگان کے ساتھ خاص ہے تواس کی کوئی اصل نہيں ہے ۔
فوت شُدگان کی جانب سے قربانی کے تین اقسام ہيں :
پہلی قسم:
زندہ لوگوں کے تابع ہوکر ان کی جانب سے قربانی کرنا مثلا : کوئی شخص اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرے اوراس میں وہ زندہ اورفوت شدگان سب کی نیت کرلے ( تویہ جائز ہے ) ۔
اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی ہے جوآپ نے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سےکی تھی اور آپ کے اہل وعیال میں کچھ پہلے کےفوت شدہ لوگ بھی تھے ۔
دوسری قسم :
یہ کہ فوت شدگان کی جانب سے ان کی وصیّت پرعمل کرتے ہوئے قربانی کرنا ( اوریہ واجب ہے لیکن اگراس سےعاجز اور مجبور ہوتوپھر ضروری نہيں ہے )، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾[البقرة:١٨١]
''اب جو شخص اسے سننے کے بعد بدل دے اس کا گناه بدلنے والے پر ہی ہوگا، واقعی اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے''۔
تیسری قسم :
زندہ لوگوں سے علیحدہ اورمستقل طور پرفوت شدگان کی جانب سے قربانی کی جائے ( وہ اس طرح کہ والد کی جانب سے علیحدہ اوروالدہ کی جانب سے علیحدہ اورمستقل قربانی کی جائے )، تویہ جائز ہے ، فقہاء حنابلہ نے اس کوبیان کیا ہے کہ اس کا ثواب میت کوپہنچے گا اوراسے اس سے فائدہ ا ورنفع ہوگا ، اس میں انہوں نے صدقہ پرقیاس کیا ہے ۔
لیکن ہمارے نزدیک فوت شدگان کے لیے قربانی کی تخصیص سنتِ نبوی کا طریقہ نہیں ہے ، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فوت شدگان میں سےبالخصوص کسی ایک کی جانب سے بھی کوئی قربانی نہیں کی ، نہ توانہوں نے اپنے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب سے قربانی کی ، حالانکہ وہ ان کے سب سے زيادہ عزيزواقرباء میں سے تھے ۔
اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں فوت ہونے والی اپنی اولاد جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں ، اورتین چھوٹے بیٹے شامل ہیں ، کی جانب سے قربانی کی ، اورنہ ہی اپنی سب سے عزيز بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی جانب سے حالانکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سےپیاری تھیں ۔
اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کسی بھی صحابی سے بھی یہ عمل نہيں ملتا کہ انہوں نے اپنے کسی فوت شدہ کی جانب سے قربانی کی ہو ۔
اورہم اسے بھی غلط سمجھتے ہیں جوآج کل بعض لوگ کرتے ہیں کہ پہلے برس فوت شدہ کی جانب سے قربانی کرتے ہیں اوراسے (حفرہ قربانی ) کا نام دیتے ہیں اوریہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس کے ثواب میں کسی دوسرے کوشریک کرنا جائز نہيں ہے ، یا پھروہ اپنے فوت شدگان کے لیے نفلی قربانی کرتے ہیں ، یاان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی ہی نہيں کرتے ہیں۔
اگر انہيں یہ علم ہو کہ جب کوئی شخص اپنے مال سے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرتا ہے تواس میں زندہ اورفوت شدگان سب شامل ہوتے ہيں تو وہ کبھی بھی یہ کام چھوڑ کراپنے اس کام کونہ کریں ۔
دیکھیں : رسالہ : (أحکام الأضحيۃ والذّکاۃ)
(طالبِ دُعا:azeez90@gmail.com)