کائنات کو کس نے بنایا؟ مجھے کس نے پیدا کیا؟ اور کیوں پیدا کیا؟
اس مادہ کے ترجمے
- Tiếng Việt - Vietnamese
- ไทย - Thai
- العربية - Arabic
- অসমীয়া - Assamese
- ગુજરાતી - Unnamed
- فارسی دری - Unnamed
- Wikang Tagalog - Tagalog
- English - English
- Èdè Yorùbá - Yoruba
- සිංහල - Sinhala
- Кыргызча - Кyrgyz
- 中文 - Chinese
- Kinyarwanda - Kinyarwanda
- español - Spanish
- Русский - Russian
- azərbaycanca - Azerbaijani
- Shqip - Albanian
- Bahasa Indonesia - Indonesian
- Deutsch - German
- čeština - Czech
- български - Bulgarian
- magyar - Hungarian
- हिन्दी - Hindi
- svenska - Swedish
- বাংলা - Bengali
- فارسی - Persian
- Kurdî - Kurdish
- bosanski - Bosnian
- తెలుగు - Telugu
- پښتو - Pashto
- Nederlands - Dutch
- português - Portuguese
- ქართული - Georgian
- Akan - Akan
- Türkçe - Turkish
- ພາສາລາວ - Unnamed
- Ўзбек - Uzbek
- മലയാളം - Malayalam
- polski - Polish
- Српски - Serbian
- Lingala - Unnamed
- አማርኛ - Amharic
- தமிழ் - Tamil
زمرے
Full Description
کائنات کو کس نے بنایا؟ مجھے کس نے پیدا کیا؟ اور کیوں پیدا کیا؟
کیا میں صحیح راستے پر ہوں ؟
آسمان و زمین کا خالق کون ہے ؟ اور اِن میں موجود ان تمام عظیم مخلوقات کا خالق کون ہے جن کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا ؟
آسمان و زمین کا یہ دقیق ومضبوط نظام کس نے بنایا ؟
انسان کو کس نے پیدا کیا ؟ اور کس نے اسے کان، آنکھ اور عقل عطا کی ؟ اور کس نے اسے چیزوں کو جاننے اور حقائق کو سمجھنے کے قابل بنایا ؟
آپ کے جسمانی اعضاء کےاندر انتہائى پیچیدہ نظام کو کس نے بنایا ؟ اور کس نے تمہاری یہ بہترین صورت بنائی ؟
کائنات کی مختلف اور متنوع زندہ مخلوقات پر غور کریں (اور بتائیں کہ) کس نے انہیں لا محدود مظاہر کے ساتھ پیدا کیا ؟
مدتوں سے یہ عظیم کائنات اپنے قوانین کے ساتھ کس طرح منظم اور مستحکم ہے؟
اس دنیا کو کنٹرول میں رکھنے والا (جیسے : زندگی اور موت، افزائش نسل، رات و دن اور موسموں کی تبدیلی وغیرہ)؟ نظام کس نے بنایا۔
کیا اس کائنات نے خود کو پیدا کیا؟ یا عدم سے وجود میں آئی ؟ یا اچانک وجود میں آئی ؟ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :﴿أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ (٣٥) ''کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ (35)أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَلْ لَا يُوقِنُونَ﴾ کیا اُنھوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں''-[الطور:35-36]۔
اگر ہم نے خود کو پیدا نہیں کیا ہے اور یہ ناممکن ہے کہ ہم عدم سے یا اچانک وجود میں آئے ہوں، تو حقیقت یہ ہے جس میں کوئی شک نہیں کہ : اس کائنات کا کوئى نہ کوئى خالق ہے جو عظمت وقدرت والا ہے، کیوں کہ اس کائنات کا خود کو وجود میں لانا یا عدم سے وجود مین آنا یا اچانک وجود میں آنا ناممکن ہے!
ایک انسان ان چیزوں کے وجود پر کیوں یقین رکھتا ہے جنہیں وہ نہیں دیکھ سکتا ہے؟ جیسے :(ادراک، عقل، روح، احساسات اور محبت) کیا یہ اس لیے نہیں کہ وہ ان کے اثرات کو دیکھتا ہے؟ تو کوئی انسان اس عظیم کائنات کے خالق کے وجود کا کیسے انکار کرسکتا ہے جب کہ وہ اس کی مخلوقات، اس کی کاری گرى اور اس کی رحمت کے اثرات کو دیکھتا ہے؟!
کوئی بھی عقل مند شخص اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ : یہ مکان بغیر کسی کے بنائے ہوئے وجود میں آگیا! یا کہا جائے کہ عدم نے اس منزل کو وجود میں لایا ! کچھ لوگ کیسے اس بات پر یقین کر لیتے ہیں کہ : یہ عظیم کائنات کسی خالق کے بغیر وجود میں آگئی؟ ایک عقل مند شخص اس بات کو کیسے قبول کرسکتا ہے کہ : کائنات کا یہ دقیق نظم وضبط اچانک وجود میں آگیا؟
یہ سب ہمیں ایک ہی نتیجہ پر پہنچاتے ہیں وہ یہ کہ اس کائنات کا ایک عظیم، طاقتور رب ہے جو اس کا نظام چلاتا ہے اور صرف وہی عبادت کے لائق ہے اور یہ کہ ہر وہ معبود جس کی اس کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے اس کی عبادت باطل ہے اور وہ عبادت کے لائق نہیں۔
عظمت والا خالق رب
کائنات کا ایک خالق وپالنہار ہے۔ وہی مالک، مدبر اور رازق ہے جو زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے۔ وہی ہے جس نے زمین کو پیدا کیا اور اسے پست اور مطیع (نرم و آسان) کردیا اور اسے اپنی مخلوقات کے لیے موزوں بنایا۔ وہی ہے جس نے آسمانوں اور اس میں موجود عظیم مخلوقات کو پیدا کیا اور وہی ہے جس نے سورج، چاند، دن اور رات کو پیدا کیا، یہ دقیق اور پیچیدہ نظام اسى کا بنایا ہوا ہے جو اس کى عظمت پر واضح دلیل ہے۔
وہی ہے جس نے ہوا کو ہمارے تابع کر دیا جس کے بغیر ہماری زندگی نہیں، وہی ہے جس نے ہم پر بارش برسائی، سمندروں اور دریاؤں کو ہمارے تابع کر دیا، وہی ہے جس نے ہماری پرورش اور حفاظت کی جب ہم اپنی ماؤں کے شکم میں کمزور بچے تھے۔ اور وہی ہے جس نے پیدائش سے لے کر موت تک ہماری رگوں میں خون کو جاری رکھا۔
یہ رب خالق اور رازق اللہ سبحانہ و تعالی ہے۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے:﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ﴾ ''بے شک تمھارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے، پھر عرش پر مستوى ہوا۔ وه رات سے دن کو ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وه رات اس دن کے پیچھے لپکی چلی آتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا، ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یاد رکھو، اللہ ہی کے لیے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، بڑا ہی بابرکت ہے اللہ جو تمام عالم کا رب ہے''۔(الأعراف:54)۔
اللہ ہی کائنات کی ہر چیز کا خالق اور رب ہے ان چیزوں کا بھی جنھیں ہم دیکھتے ہیں اور ان کا بھی جنھیں ہم نہیں دیکھتے ہیں۔ اس کے سوا ہر چیز اس کی مخلوقات میں سے ہے۔ وہ اکیلا ہی عبادت کے لائق ہے، اور اس کے ساتھ کسی کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ اور اس کی بادشاہت، تخلیق، تدبیر اور عبادت میں اس کا کوئی شریک نہیں۔
اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور بھی معبود ہیں تو کائنات کا نظام بگڑ جائے گا۔ کیوں کہ یہ مناسب نہیں ہے کہ دو معبود ایک ہی وقت میں کائنات کے امور کو چلا سکیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا} "اگر آسمان وزمین میں سوائے اللہ تعالی کے اور بھی معبود ہوتے، تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے۔"(الأنبیاء: 22)۔
رب خالق کے صفات
رب سبحانہ کے بہت سے بے شمار اچھے اچھے نام ہیں، اور اس کی بہت سی عظیم، اعلیٰ صفات ہیں جو اس کے کمال پر دلالت کرتی ہیں۔ اور رب کے ناموں میں سے ایک نام : ''خالق'' ہے۔ اور ایک نام ''اللہ'' ہے جس کا معنی ہے : وہ معبود جو تنہا عبادت کے لائق ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور رب سبحانہ وتعالى کے ناموں میں سے : الحی (ہمیشہ زندہ رہنے والا)، القیوم (خود سے قائم رہنے والا اور دوسروں کو قائم رکھنے والا)، الرحیم (رحم کرنے والا)، الرزاق (رزق دینے والا)، اور الکریم (جُود و عطا والا) ہیں۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿اللَّهُ لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ وَلا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ﴾ ''اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، جو زندہ خود سے قائم رہنے والا اور سب کا تھامنے والا ہے، جسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند، اس کی ملکیت میں زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہیں۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کر سکے، وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کےعلم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وہ چاہے، اس کی کرسی کی وسعت نے زمین و آسمان کو گھیر رکھا ہے، ان کی حفاظت اس کے لئے بھارى نہیں ہے، وہ تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔''(سورۃ البقرۃ : 255)۔
نیز اللہ تعالی نے فرمایا :﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (١) "آپ کہہ دیجیے کہ وه اللہ ایک (ہی) ہے۔ (1)اللَّهُ الصَّمَدُ (٢) اللہ مکمل سیادت والا اور بے نیاز ہے۔ (2)لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (٣) نہ اُس سے کوئی پیدا ہوا نہ وه کسی سے پیدا ہوا۔ (3)وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾ اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔'' (4)(الإخلاص 1-4)۔
معبود برحق رب (اللہ) صفاتِ کمال سے متصف ہے۔
اس کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ معبود ہے اور اس کے سوا سب مخلوق ہیں جو حکم کو بجا لانے کے مکلف ہیں اور سب اس کے زیر نگیں ہیں۔
اس کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا، خود سے قائم رہنے والا اور سب کو تھامنے والا ہے، اللہ ہی ہے جس نے ہر جاندار کو زندگی بخشی اور انہیں عدم سے پیدا کیا، اور وہی اسے اس کے وجود کے ساتھ برقرار رکھنے والا اور رزق دینے والا اور اس کی ضروریات پوری کرنے والا ہے۔ اللہ ہمیشہ سے زندہ ہے اسے کبھی موت نہیں آتی اور اُس کا فنا ہونا ناممکن ہے، وہ قیوم ہے سوتا نہی ہے، بلکہ نہ اس کو اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔
اس (اللہ) کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ سب کچھ جاننے والا ہے جس سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔
اس کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے جو ہر چیز کو سنتا ہے اور ہر مخلوق کو دیکھتا ہے، دل میں آنے والے خیالات اور سینوں کی پوشیدہ باتوں کو بھی وہ (خوب) جانتا ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالی سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔
اس کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ قادرِ مطلق ہے، کوئی چیز اس کو نہ عاجز کر کستی ہے اور نہ کوئی اس کے ارادہ کو ٹال سکتا ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہتا ہے روکتا ہے، اور وہ جسے چاہے آگے کرتا ہے اور جسے چاہے پیچھے کرتا ہے، اور وہ بڑی حکمت والا ہے۔
اس کی صفات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ خالق، رازق اور مدبر ہے، کہ جس نے مخلوق کو پیدا کیا اور اور اس کے تمام معاملات انتظام کیا اور تمام مخلوقات اس کی گرفت میں اور اس کے سامنے زیر ومغلوب ہیں۔
اس کی صفات میں سے یہ بھى ہے کہ وہ بے کس کی پکار کو سنتا ہے، مصیبت زدہ کى فریاد رسى کرتا ہے اور پریشانیوں کو دور کرتا ہے اور ہر مخلوق جب کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا ہو تی ہے تو لازمی طور پر اسی سے گریہ وزاری کرتی ہے۔
عبادت صرف اللہ تعالی کے لیے ہے اور وہ اکیلا ہی اس کا مکمل مستحق ہے کوئى اور نہیں۔ اس کے علاوہ جس کی بھی عبادت کی جائے وہ معبود باطل و نامکمل اور موت و فنا کا شکار ہونے والا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں ایسی عقلوں سے نوازا ہے جو اس کی عظمت کو سمجھتی ہیں، اور اُس نے ہمیں ایسی فطرت سے نوازا ہے جو نیکی کو پسند کرتی اور برائی سے نفرت کرتی ہے اور جب اللہ رب العالمین کی طرف رجوع کرتی ہے تو اسے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یہ فطرت اللہ کے کمال پر دلالت کرتی ہے اور اس بات کے نا ممکن ہونے پر کہ اللہ سبحانہ وتعالی کسی نقص سے متصف ہو۔
ایک عقلمند کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ کامل کے سوا کسی اور کی عبادت کرے، تو بھلا وہ اپنے جیسی یا اپنے سے کمتر مخلوق کی پرستش کیسے کر سکتا ہے؟
معبود انسان یا بت یا درخت یا جانور نہیں ہو سکتا!
اللہ اپنے آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوى اپنی مخلوق سے الگ اور جدا ہے، رب کی ذات میں اس کى مخلوقات میں سے کوئی موجود نہیں اورنہ ہی اس کی مخلوقات کے اندر اس کى ذات میں سے کچھ موجود ہے' وہ نہ اپنی کسى مخلوق میں حلول کرتا ہے اور نہ ہى اپنى کسى مخلوق کا جسم اختیار کرتا ہے۔
(رب) جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔ وہ اپنی مخلوق سے بے نیاز ہے، وہ نہ سوتا ہے اور نہ کھاتا ہے، وہ عظیم ہے۔ اس کی بیوی یا بچہ نہیں ہو سکتا۔ خالق عظمت کے صفات سے متصف ہے اور یہ مکمن نہیں کہ اسے کسى چیز کى حاجت لا حق ہو یا وہ نقص سے متصف ہو۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے :﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ (٧٣) ''لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وه ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے، گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بودا ہے طلب کرنے واﻻ اور بڑا بودا ہے وه جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔'' ۷۳مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾ انھوں نے اللہ کے مرتبے کے مطابق اس کی قدر دانی ہی نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور و قوت واﻻ اور غالب و زبردست ہے۔"(سورۂ حج :۷۳-۷۴) ۔
اس عظیم خالق نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟ اور وہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟
کیا یہ معقول بات ہے کہ اللہ نے ان تمام مخلوقات کو بے مقصد اور بیکار پیدا کیا ہے، حالاں کہ وہ حکمت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے؟
کیا یہ معقول بات ہے کہ جس نے ہمیں اتنی درستگی اور مہارت کے ساتھ پیدا کیا اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو ہمارے لئے کار آمد بنا دیا وہ ہمیں بغیر کسی مقصد کے پیدا کر دے یا ہمیں ان اہم ترین سوالوں کے جواب کے بغیر چھوڑ دے جو ہمیں پریشان کر رہے ہیں، جیسے: ہم یہاں کیوں ہیں؟ موت کے بعد کیا ہوگا؟ ہماری تخلیق کا مقصد کیا ہے؟
کیا یہ معقول بات ہے کہ ظالم کے لیے سزا اور محسن کے لیے نیکی پر جزا نہ ہو؟
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :﴿أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ﴾ "کیا تم یہ گمان کیے ہوئے ہو کہ ہم نے تمھیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔''(سورۂ مومنون : 115)۔
بلکہ اللہ تعالی نے رسول بھیجے تاکہ ہم اپنے وجود کا مقصد جانیں، اور ہماری رہنمائی کریں کہ ہم کس طرح اس کی عبادت کریں اور اس کا قرب حاصل کریں، اور وہ ہم سے کیا چاہتا ہے! اور ہم اس کی رضامندی کیسے حاصل کر سکتے ہیں، اور موت کے بعد ہمارا کیا انجام ہوگأ؟
اللہ تعالی نے رسولوں کو اس لیے بھیجا تاکہ وہ ہمیں یہ خبر دیں کہ صرف اللہ ہی عبادت کے لائق ہے۔ ہمیں اس کی عبادت کرنے کا طریقہ سکھانے، اور اس کے اوامر و نواہی سے آگاہ کرنے، اور ہمیں ایسے نیک اقدار سکھانے کے لیے انہیں بھیجا کہ اگر ہم ان پر عمل پیرا ہوں تو ہماری زندگی نیکیوں اور برکتوں سے بھر جائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے بہت سے رسول بھیجے، جیسے: (نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم الصلاۃ و السلام) اور اللہ تعالیٰ نے ایسی نشانیوں اور معجزات سے ان کی تائید فرمائی جن سے ان کی سچائی کی تصدیق ہوتی ہے اور اس بات کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں، اور ان کی آخری کڑی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
رسولوں نے ہمیں واضح طور پر یہ بتایا کہ یہ زندگی ایک امتحان ہے اور حقیقی زندگی تو موت کے بعد ہوگی۔
اور یہ کہ ان مومنوں کے لیے جنت ہے جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور تمام رسولوں پر ایمان لاتے ہیں، اور ایک آگ ہے جو اللہ نے ان کافروں کے لیے تیار کیا ہے جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی پرستش کرتے ہیں یا اللہ کے رسولوں میں سے کسی کا انکار کرتے ہیں۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے :﴿يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (٣٥) ''اے اوﻻد آدم! اگر تمھارے پاس تم ہی میں سے رسول آئیں جو میرے احکام تم سے بیان کریں تو جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور (اپنی) اصلاح کرے تو ان لوگوں پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ وه غمگین ہوں گے۔وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ اور جو لوگ ہمارے ان احکام کو جھٹلائیں اور ان سے تکبر کریں، وه لوگ دوزخ والے ہوں گے، وه اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔''(سورۂ اعراف : 35-36)۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے :﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (٢١) ''اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمھارا بچاؤ ہے۔''﴿21﴾الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (٢٢) "جس نے تمھارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کرکے تمھیں روزی دی، خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو"۔ (22)وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (٢٣) ''ہم نے جو کچھ اپنے بندے پر اتارا ہے اس میں اگر تمھیں شک ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ، تمھیں اختیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو، اگر تم سچے ہو ۔'' (23)فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (٢٤) ''اگر تم نے نہ کیا اور تم ہرگز نہیں کرسکتے تو (اسے سچا مان کر) اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔'' ﴿24﴾وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ ''اور ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ان جنتوں کی خوشخبریاں دو، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ جب کبھی وه پھلوں کا رزق دیے جائیں گے، تو کہیں گے یہ وہی ہے جو ہم اس سے پہلے دیے گئے تھے (لیکن یہ ان کو لذت وذائقہ میں نیا پائیں گے)، باوجود اس کے کہ انہیں ان کا ہم شکل دیا جائے گا، اور ان کے لیے بیویاں ہیں صاف ستھری اور وه ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والے ہیں"۔ (25)(سورۂ بقرہ : 21-25)۔
متعدد رسول کیوں بھیجے گئے ؟
اللہ تعالیٰ نے قوموں میں اپنے رسول بھیجے ہیں، اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں اللہ نے کوئی رسول نہ بھیجا ہو، تاکہ وہ انھیں اپنے رب کی عبادت کی دعوت دے، اور اس کے احکام و نواہی کو ان تک پہنچائے، تمام رسولوں کی دعوت کا ایک ہی مقصد تھا کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں اور جب بھی کوئی قوم ایک اللہ کی وحدانیت کے سلسلے میں اس کے رسول کی لائی ہوئی باتوں کو ترک کرنا یا ان کی تحریف کرنا شروع کر دیتی ہے تو اللہ کسی دوسرے رسول کو مبعوث کرتا ہے تاکہ وہ درست رہنمائی کرے اور لوگوں کو توحید اور اللہ کی اطاعت کے ذریعہ فطرت سلیمہ کی طرف لوٹائے۔
یہاں تک کہ اللہ نے رسولوں کا یہ سلسلہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کیا، جو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے مکمل دین اور ابدی شریعت عامہ لیکر آئے، جو اس سے پہلے کی تمام شریعتوں کی تکمیل اور منسوخی کرتی ہے، اللہ تعالیٰ نے قیامت تک اس دین کی بقا اور تسلسل کی ضمانت دی ہے۔
کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ تمام رسولوں پر ایمان نہ لائے۔
اللہ ہی ہے جس نے تمام رسولوں کو بھیجا، اور اپنی تمام مخلوقات کو ان کی اطاعت کا حکم دیا۔ جس نے ان رسولوں میں سے کسی ایک رسول کی رسالت کا بھی انکار کیا گویا کہ اس نے سب کا انکار (کفر) کیا۔ اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں کہ ایک شخص اللہ کی وحی کو جھٹلائے۔ جنت میں داخل ہونے کے لیے تمام رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔
اس زمانے میں ہر شخص پر اللہ کے تمام رسولوں پر اور یوم آخرت پر ایمان لانا واجب ہے۔ یہ صرف آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور ان کی پیروی کرنے سے ہو سکتا ہے۔ جن کی تائید ابدی معجزہ قرآن کریم سے کی گئی ہے، جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لی ہے جب تک کہ زمین اور اہل زمین باقی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جو شخص اس کے رسولوں میں سے کسی کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو وہ اللہ کا اور اس کی وحی کا منکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا (١٥٠) ''جو لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق رکھیں اور کہتے ہیں کہ بعض نبیوں پر تو ہمارا ایمان ہے اور بعض پر نہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے بین بین کوئی راه نکالیں۔ (150)أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا﴾ یقین مانو کہ یہ سب لوگ سچ میں کافر ہیں، اور کافروں کے لیے ہم نے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے۔''(سورۂ نساء : 150-151)۔
لہذا، ہم مسلمان اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں- جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے - اور اسی طرح ہم تمام پچھلے رسولوں اور کتابوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ﴾ ''رسول ایمان ﻻیا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان ﻻئے، یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ﻻئے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے، انھوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری مغفرت طلب کرتے ہیں، اے ہمارے رب! اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے''۔(سورۂ بقرہ : 285)۔
قرآن کریم کیا ہے؟
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ کلام اور وحی ہے جو اس نے سب سے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا اور یہ سب سے بڑا معجزہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی سچائی پر دلالت کرتا ہے۔ قرآن کریم کے احکام میں حقانیت اور معلومات میں صداقت ہے۔اللہ تعالیٰ نے جھٹلانے والوں کو چیلنج کیا کہ وہ قرآن جیسی ایک سورت لے آئیں لیکن وہ ایسا کرنے سے قاصر رہے کیونکہ مضمونِ قرآن عظمتوں سے بھرا ہے اور اس میں موجود باتیں انسان سے متعلق دنیاوى اور اخروى تمام امورکو شامل ہیں۔ قرآن مجید ایمان کی ان تمام حقائق کو شامل ہے جن پر ایمان لانا واجب ہے۔اس میں وہ احکام و نواہی بھی شامل ہیں جن کی پاسداری کرنا انسان کے لیے واجب ہے اپنے اور اپنے رب کے درمیان، یا اپنے اور اپنے نفس کے درمیان، یا اپنے اور باقی مخلوقات کے درمیان، اور یہ سب فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ انداز و اسلوب میں موجود ہے۔اس میں بہت سارے عقلی شواہد اور سائنسی حقائق شامل ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کتاب انسانوں کی طرف سے نہیں بنائی جا سکتی ہے، بلکہ یہ انسانوں کے رب کا کلام ہے۔
اسلام کیا ہے ؟
اسلام کا مفہوم ہے: توحيد كو اپناتے ہوئے اللہ کے حضور سرِ تسلیم خم کردینا، اس کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے اس کی فرماں برداری کرنا اور بخوشی اس کی شریعت پر عمل پیرا ہونا اور ہر اس چیز کا انکار کرنا جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں کو ایک پیغام کے ساتھ بھیجا، اور وہ ہے: صرف اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی دعوت دینا اور ہر اس چیز کا انکار کرنا جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے۔
اسلام تمام انبیاء کا دین ہے اس لیے ان کی دعوت ایک ہے اور ان کی شریعتیں الگ الگ ہیں۔ آج صرف مسلمان ہی اس سچے مذہب پر کاربند ہیں جسے تمام انبیاء لیکر آئے تھے۔ اور اس دور میں اسلام کا پیغام ہی حق ہے۔ اور یہ خالق کی طرف سے انسانیت کے لیے آخری پیغام ہے۔جس رب نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کو (رسول بناکر) بھیجا، اسی نے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا، اور اسلامی شریعت اس سے پہلے کی تمام شریعتوں کو منسوخ کرتی ہے۔
تمام مذاہب جن کی لوگ آج پیروی کرتے ہیں- سوائے اسلام کے- وہ مذاہب انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں، یا وہ مذاہب الہی تھے لیکن پھر انسانوں نے ان میں چھیڑ چھاڑ کیا تو وہ وراثت میں ملنے والی اساطیری داستانوں اور انسانی اجتہادات کا مرکب بن گئے۔
جہاں تک مسلمانوں کے مذہب کا تعلق ہے تو وہ ایک واضح دین ہے جس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی، اسی طرح ان کی عبادتیں بھی ایک ہیں جن کے ذریعہ وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں، وہ سب پنجگانہ نمازیں ادا کرتے ہیں، اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور ماہ رمضان کے روزے رکھتے ہیں۔ ان کے دستور پر غور کریں جو کہ قرآن کریم ہے اور تمام ممالک میں ایک ہی کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِينٗاۚ فَمَنِ ٱضۡطُرَّ فِي مَخۡمَصَةٍ غَيۡرَ مُتَجَانِفٖ لِّإِثۡمٖ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ﴾ ''آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمھارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہوجائے بشرط یہ کہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقینا اللہ مغفرت کرنے والا اور بہت بڑا مہربان ہے۔''(سورۂ مائدہ : 3)۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَالنَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (٨٤) ''آپ کہہ دیجیے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور جو کچھ ہم پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اوﻻد پر اتارا گیا اور جو کچھ موسیٰ، عیسیٰ (علیہما السلام) اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے، ان سب پر ایمان ﻻئے، ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں۔'' (84)وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ ''جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔''(سورۂ آل عمران : 84-85)۔
دینِ اسلام زندگی گزارنے کا ایک جامع طریقہ موجود ہے، جو فطرت اور عقل کے مطابق ہے، اور اسے عام لوگ بھی قبول کرتے ہیں، اسے عظیم خالق نے اپنی مخلوق کے لیے بنایا ہے، اور یہ دنیا و آخرت میں تمام لوگوں کے لیے بھلائی اور سعادت کا مذہب ہے۔ یہ ایک نسل کو دوسری نسل سے ممتاز نہیں کرتا ہے اور نہ کسی رنگ کو کسی رنگ پر فوقیت دیتا ہے' اس کی نظر میں تمام لوگ برابر ہیں، اور اسلام میں کسی کو بھی دوسرے پر ممتاز نہیں کیا جاتا مگر اس کے اچھے اعمال کے بقدر۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے :(مَنۡ عَمِلَ صَٰلِحٗا مِّن ذَكَرٍ أَوۡ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤۡمِنٞ فَلَنُحۡيِيَنَّهُۥ حَيَوٰةٗ طَيِّبَةٗۖ وَلَنَجۡزِيَنَّهُمۡ أَجۡرَهُم بِأَحۡسَنِ مَا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ) ''جو شخص نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت لیکن با ایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انھیں ضرور ضرور دیں گے۔''(سورۂ نحل : 97)۔
اسلام سعادت وخوش بختی کا راستہ ہے۔
اسلام تمام انبیاء کا دین ہے اور یہ تمام لوگوں کے لیے اللہ کا دین ہے، عربوں کے لیے مخصوص دین نہیں ہے۔
اسلام اس دنیا میں حقیقی خوشی اور آخرت میں ابدی سعادت کا راستہ ہے۔
اسلام وہ واحد مذہب ہے جو روح اور جسم کی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور تمام انسانی مسائل کو حل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقَى (123) ''فرمایا : تم دونوں یہاں سےاتر جاؤ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو، اب تمھارے پاس جب کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وه بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا۔'' (123)وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى﴾ ''اور ہاں جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروزِ قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے۔''(سورۂ طہ : 123-124)۔
اسلام میں داخل ہونے سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟
اسلام میں داخل ہونے کے بہت سے فائدے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں :
اس دنیا میں کامیابی اور عزت حاصل ہوتی ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اللہ کا ہوجائے، ورنہ وہ شیطان اور خواہشات کا غلام ہوجاتا ہے۔
آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہوگا وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا، اس سے راضی ہوگا، اسے جنت میں داخل کرے گا، وہ دائمی نعمت اور اللہ کی رضامندی سے کامیاب ہوگا، اور عذاب جہنم سے بچ جائے گا۔
قیامت کے دن مومن انبیاء، صادقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہو گا، اور یہ بہترین صحبت ہے اور جو ایمان نہیں لائے گا وہ ظالموں، بدکاروں، مجرموں اور مفسدین کے ساتھ ہو گا۔
جن لوگوں کو اللہ جنت میں داخل کرے گا وہ موت، بیماری، درد، بڑھاپے اور غم کے بغیر دائمی خوشیوں میں رہیں گے، اور وہ ان کی خواہشات کے مطابق ہر وہ چیز دے گا جو وہ چاہیں گے، اور جو لوگ جہنم میں داخل ہوں گے وہ ابدی اور ہمیشگی کے عذاب میں ہوں گے۔
جنت میں وہ لذتیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے، نہ کسی کان نے سنی ہے اور نہ کسی انسان نے سوچی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ "جو شخص نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت لیکن با ایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انھیں ضرور ضرور دیں گے۔"(سورۂ نحل : 97)۔ارشاد باری تعالی ہے :﴿فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٞ مَّآ أُخۡفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعۡيُنٖ جَزَآءَۢ بِمَا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ﴾ ''کوئی شخص نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لیے پوشیده کر رکھی ہے، یہ ان کے اعمالِ (صالحہ) کا صلہ ہے جو وہ کرتے تھے۔''(سورۂ سجدہ : 17)۔
اگر میں اسلام سے روگردانی کروں تو مجھے کیا نقصان ہوگا؟
انسان سب سے بڑے علم اور معرفت سے محروم ہو جائے گا، اور وہ ہے اللہ کا علم اور معرفت، اور ایسا کرکے وہ اللہ پر ایمان کھو دے گا، جو کہ اس کو دنیا میں سلامتی و سکون اور آخرت میں ابدی خوشی دیتا ہے۔
انسان سب سے عظیم کتاب تک رسائی سے محروم ہو جائے گا جسے اللہ نے لوگوں پر نازل کیا ہے، اور اس عظیم کتاب پر ایمان لانے سے محروم رہے گا۔
وہ انبیاء پر ایمان لانے سے محروم رہے گا، اسی طرح وہ قیامت کے دن جنت میں ان کی صحبت سے بھی محروم ہو جائے گا۔ وہ جہنم کی آگ میں شیطانوں، مجرموں اور ظالموں کا ساتھی ہو گا اور یہ بہت برا ٹھکانہ اور بہت بری صحبت ہوگی۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے :﴿قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَلا ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ (15) ''کہہ دیجیے کہ حقیقی زیاں کار وہ ہیں جو اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو قیامت کے دن نقصان میں ڈال دیں گے یاد رکھو کہ کھلم کھلا نقصان یہی ہے۔'' (15)لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ ذَلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ يَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ﴾ ''انہیں نیچے اوپر سے آگ کے (شعلے مثل) سائبان (کے) ڈھانک رہے ہوں گے۔ یہی (عذاب) ہے جن سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرا رہا ہے، اے میرے بندو! پس مجھ سے ڈرتے رہو۔''(سورۂ زمر : 15-16)۔
جو شخص آخرت میں نجات حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اسلام قبول کرے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے۔
تمام انبیاء اور رسل علیہم السلام کے یہاں متفق علیہ حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ صرف وہی مسلمان آخرت میں نجات پائیں گے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرتے اور تمام انبیاء اور رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ سو تمام رسولوں کے ماننے والے اور ان پر ایمان لانے والے جنت میں داخل ہوں گے اور جہنم سے نجات پائیں گے۔
جو لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں تھے اور ان پر ایمان لائے اور ان کی تعلیمات پر عمل کیا وہ تو مسلمان اور مومن ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جب عیسیٰ کو مبعوث فرمایا تو موسیٰ کے پیروکاروں پر یہ واجب ہوگیا کہ وہ عیسی پر ایمان لائیں اور ان کی پیروی کریں۔جو عیسیٰ علیہ السلام کو مانتا ہے وہ نیک وصالح مسلمان ہے اور جو عیسیٰ علیہ السلام کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں موسیٰ علیہ السلام کے دین پر قائم رہوں گا تو وہ مومن نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے اللہ کے بھیجے ہوئے نبی کو ماننے سے انکار کر دیا۔پھر جب اللہ تعالی نے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو سب پر یہ واجب ہوگیا کہ ان پر ایمان لائیں۔ رب کریم ہی نے موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کو بھیجا، اور وہی ہے جس نے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔ چنانچہ جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو نہ مانے اور کہے کہ میں موسیٰ علیہ السلام یا عیسیٰ علیہ السلام کی پیروی کرتا رہوں گا، تو وہ مومن نہیں ہے۔
کسی شخص کے لیے یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کا احترام کرتا ہے اور نہ ہی اس کی آخرت کی نجات کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ صدقہ دے اور غریبوں کی مدد کرے۔ بلکہ اللہ، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لانا واجب ہے۔ تاکہ اللہ اس کے اعمال قبول فرمائے! شرک، اللہ سے کفر، اللہ کی نازل کردہ وحی کو جھٹلانے یا اس کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو جھٹلانے سے بڑا کوئی گناہ نہیں۔
یہودی، عیسائی اور دوسرے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے بارے میں سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور دین اسلام میں داخل ہونے سے انکار کیا، تو وہ آگ میں (جہنم میں) پمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے نہ کہ کسی انسان کا۔ اللہ نے فرمایا :﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ أُولَـٰئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّة﴾ ''بے شک جو لوگ اہل کتاب میں سے کافر ہوئے اور مشرکین وہ دوزخ کی آگ میں (جائیں گے) جہاں وه ہمیشہ (ہمیشہ) رہیں گے۔ یہ لوگ بدترین خلائق ہیں۔''(سورۂ بینہ : 6)۔
چونکہ اللہ کی طرف سے انسانیت کے لیے آخری پیغام نازل ہو چکا ہے، اس لیے ہر وہ انسان جو اسلام کے بارے میں سنتا ہے اور آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو سنتا ہے، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ آپ پر ایمان لائے، آپ کی شریعت پر عمل کرے اور آپ کے اوامر و نواہی کی پیروی کرے۔ اور جو اس آخری پیغام کے بارے میں سنتا ہے اور اس کا انکار کرتا ہے تو اللہ اس سے کچھ بھی قبول نہیں کرے گا اور اسے آخرت میں عذاب دے گا۔
اور اس کی ایک دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ:﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ ''اور جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔''(سورۂ آل عمران : 85)۔
ارشاد باری تعالی ہے :﴿قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ﴾ ''آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں، نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں۔ پس اگر وه منھ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواه رہو ہم تو مسلمان ہیں۔''(سورۂ آل عمران : 64)۔
مسلمان بننے کے لیے مجھ پر کونسی چیزیں ضروری ہیں؟
اسلام میں داخل ہونے کے لیے ان چھ ارکان پر ایمان لانا ضروری ہے :
اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا اور یہ ایمان رکھنا کہ وہ خالق، رازق، مدبر اور ہر چیز کا مالک ہے، اور اس کے مثل کوئی چیز نہیں، نہ اس کی کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی اولاد، وہی تنہا عبادت کا مستحق ہے، اس کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہیں کرنی چاہیے، اور یہ ایمان رکھنا کہ اس کے علاوہ دوسروں کی عبادت کرنا باطل ہے۔
فرشتوں پر ایمان رکھنا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، اس نے انہیں نور سے پیدا کیا، اس نے فرشتوں کی ذمہ داریوں میں یہ شامل کردیا کہ وہ نبیوں پر وحی لے کر اتریں۔
ان تمام کتابوں پر ایمان رکھنا جو اللہ نے اپنے نبیوں پر نازل کیا (جیسے تورات اور انجیل ان میں تحریف واقع ہونے سے پہلے) اور آخری کتاب قرآن کریم پر۔
تمام رسولوں مثلاً نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور ان میں سے آخری رسول محمد -صلوات اللہ وسلامہ علیہم- پر ایمان لانا، جو کہ انسان تھے، اللہ تعالى نے ان کی وحی کے ذریعے تائید فرمائی اور انہیں نشانیاں اور معجزات دیے جو ان کے سچے ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
آخرت کے دن پر ایمان رکھنا جب اللہ اولین و آخرین کو زندہ کرے گا اور اپنی مخلوق کے درمیان فیصلہ کرے گا اور مومنوں کو جنت میں اور کافروں کو جہنم میں داخل کرے گا۔
تقدیر پر اور اس بات پر ایمان رکھنا کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے، ماضی میں جو ہوا اس کو بھى اور مستقبل میں رونما ہونے والى چیزوں کو بھی، اور اس بات پر ایمان رکھنا کہ اللہ کے پاس ہر چیز کا علم ہے اور اس نے سب کچھ لکھ رکھا ہے، اور اسی نے ہر چیز کو پیدا کیا۔
فیصلے میں تاخیر نہ کریں!
دنیا ہمیشہ کا ٹھکانہ نہیں ہے...
اس سے سارا حسن غائب ہو جائے گا اور تمام شہوتیں بجھ جائیں گی۔
ایک دن ایسا آئے گا جب انسان سے اس کے ہر کام کا حساب لیا جائے گا، اور یہی قیامت کا دن ہے۔ اللہ کا فرمان ہے :﴿وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لاَ يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلاَ كَبِيرَةً إِلاَّ أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلاَ يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا﴾ ''اور نامۂ اعمال سامنے رکھ دیے جائیں گے۔ پس تو دیکھے گا کہ گنہگار اس کی تحریر سے خوفزده ہو رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے ہاے ہماری خرابی، یہ کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا شمار کیے بغیر باقی ہی نہیں چھوڑا اور جو کچھ انھوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ﻇلم وستم نہ کرے گا"۔(سورۂ کہف : 49)۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ جو شخص اسلام قبول نہیں کرتا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔
یہ خسارہ کوئی معمولی خسارہ نہیں بلکہ بہت بڑا خسارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ ''جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔''(سورۂ آل عمران : 85)۔
چنانچہ اسلام وہ دین ہے جس کے علاوہ اللہ کوئی اور دین اللہ تعالی قبول نہیں کرے گا۔
اللہ نے ہمیں پیدا کیا اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں اور یہ دنیا ہمارے لیے ایک امتحان ہے۔
انسان یہ یقین کرلے کہ : یہ زندگی ایک خواب کی طرح مختصر ہے... اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کب مرے گا!
وہ اپنے خالق کو کیا جواب دے گا اگر وہ قیامت کے دن اس سے پوچھے گا کہ اس نے حق کی پیروی کیوں نہیں کی؟ اس نے خاتم النبیین کی پیروی کیوں نہیں کی؟
وہ قیامت کے دن اپنے رب کو کیا جواب دے گا، جب کہ اس نے اسلام میں کفر کی پیروی کرنے سے خبردار کیا تھا، اور بتایا تھا کہ کافروں کا انجام جہنم میں ابدی ہلاکت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ ''اور جو انکار کرکے ہماری آیتوں کو جھٹلائیں، وه جہنمی ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔''(سورۂ بقرہ : 39)۔
جس نے باپ دادا کی تقلید کرتے ہوئے حق کا انکار کیا اس کا کوئی عذر مقبول نہیں۔
اللہ نے ہمیں یہ خبردی ہے کہ بہت سے لوگ اپنے ماحول کے ڈر سے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
اور بہت سے لوگ اس لیے اسلام کا انکار کرتے ہیں کہ انہیں اپنے باپ دادا سے جو عقائد ملے ہیں اور جن کے وہ عادی رہے ہیں' ان سے وہ پھرنا نہیں چاہتے' اور بہت سے لوگ تو وراثت میں ملے باطل عقیدہ کی حمیت اور تعصب میں حق قبول کرنے سے باز رہتے ہیں۔
یہ تمام لوگ معذور نہیں ہیں اور اللہ کے سامنے جب کھڑے ہوں گے تو ان کی بولتی بند ہوگی اور کوئی دلیل نظر نہیں آئے گی۔
ملحد کے لیے یہ کہنے میں کوئی عذر نہیں ہے کہ : "میں ملحد ہی رہوں گا کیونکہ میں ایک ملحد گھرانے میں پیدا ہوا ہوں!" بلکہ اسے چاہیے کہ وہ اس عقل کو استعمال کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے، زمین و آسمان کی عظمت پر غور کرنا چاہیے اور اپنی عقل سے سوچنا چاہیے جو اس کے خالق نے اسے یہ احساس دلانے کے لیے دیا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔اسی طرح جو شخص پتھروں اور بتوں کی پرستش کرتا ہے اس کا اپنے باپ دادا کى تقلید کرنا کوئی مقبول عذر نہیں ہے بلکہ اسے حقیقت کی تلاش کرنی چاہیے اور اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ میں ایسی بے جان چیز کی عبادت کیسے کروں جو مجھے سن نہیں سکتی، مجھے دیکھ نہیں سکتی اور مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ ؟!
اسی طرح وہ نصرانی جو ایسی باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو فطرت اور عقل کی منافی ہیں' اسے ضرور اپنے نفس سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ : رب اپنے بے گناہ اور معصوم بیٹے کو دوسروں کے گناہوں کی وجہ سے کیوں کر قتل کر سکتا ہے! یہ تو ظلم ہے! انسان رب کے بیٹے کو کیسے صولی پر چڑھا سکتے اور قتل کر سکتے ہیں! کیا رب اس بات پر قادر نہیں کہ انسانوں کے گناہ معاف کرے' بغیر اس کے کہ ان کی معافی کے لیے اپنے بیٹے کو قتل کرے؟ کیا رب اپنے بیٹے کا دفاع کرنے پر قادر نہیں؟
عقل مند انسان پر واجب ہے کہ وہ حق کی اتباع کرے اور باطل پر اپنے آبا واجداد کی پیروی نہ کرے۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے :﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ﴾ ''اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو پایا، اگر چہ ان کے بڑے نہ کچھ سمجھ بوجھ رکھتے ہوں اور نہ ہدایت رکھتے ہوں۔''(سورۂ مائدہ : 104)۔
جو شخص اسلام قبول کرنا چاہے اور اپنے رشتہ داروں کی اذیت سے خوفزدہ ہو' اسے کیا کرنا چاہیے؟
جو شخص اسلام قبول کرنا چاہے لیکن اسے اپنے ماحول کا خوف ہو' تو ممکن ہے کہ وہ اسلام قبول کرلے لیکن اپنا معاملہ پوشیدہ رکھے یہاں تک کہ اللہ تعالی اس کے لیے خیر کا راستہ آسان کردے جس میں وہ آزادانہ طور پر اسلام پر عمل کرنے کے قابل ہوجائے۔
ایک انسان پر فوری طور پر اسلام قبول کرنا واجب ہے، لیکن اس پر اپنے اردگرد کے لوگوں کو اپنے اسلام قبول کرنے کی اطلاع دینا یا اس کی تشہیر کرنا واجب نہیں ہے، اگر یہ اس کے لیے نقصان دہ ہو۔
جان لیں کہ اگر کوئی شخص اسلام قبول کر لیتا ہے، تو وہ لاکھوں مسلمانوں کا بھائی ہو گا، اور وہ اپنے ملک کی مسجد یا اسلامی مرکز سے رابطہ کر سکتا ہے اور ان سے مشورہ اور مدد مانگ سکتا ہے، اور اس سے وہ خوش بھی ہوں گے۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے :﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ''اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے۔وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِب﴾ اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو۔''(سورۂ طلاق : 2، 3)۔
اے میرے محترم قاری
کیا لوگوں کو خوش رکھنے سے زیادہ اہم خالق کو خوش کرنا نہیں ہے، جس نے ہمیں اپنی تمام نعمتوں سے نوازا جس نے ہمیں اپنی ماؤں کے پیٹوں میں جنین ہونے کے دوران غذا فراہم کیا اور ہمیں وہ ہوا فراہم کی جس میں ہم سانس لیتے ہیں؟
کیا دنیا وآخرت کی کامیابی حاصل کرنا اس بات کا مستحق نہیں ہے کہ اس کی خاطر دنیا کی زائل ہونے والی معمولی لذتوں کی قربانی دی جائے؟ یقینا ' اللہ کی قسم!
اس لیے انسان کو چاہیے کہ اپنے ماضی کی وجہ سے اپنی غلطی سدھارنے اور صحیح کام کرنے سے باز نہ رہے۔
تاکہ انسان آج سچا مومن بن سکے ! وہ شیطان کو اس بات کی اجازت نہ دے کہ وہ اسے حق پر چلنے سے روک دے!
اللہ تعالٰی فرماتا ہے :﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنزلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا (174) "اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے کھلی دلیل آپہنچی اور ہم نے تمھاری جانب واضح اور صاف نور اتار دیا ہے۔" (174)فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا﴾ پس جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان ﻻئے اور اسے مضبوط پکڑ لیا، انھیں تو وه عنقریب اپنی رحمت اور فضل میں لے لے گا اور انھیں اپنی طرف کی راه راست دکھا دے گا۔''(سورۂ نساء : 174-175)۔
کیا آپ اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ لینے کے لیے تیار ہیں؟
اگر گذری ہوئى باتیں منطقی ہیں، اور انسان اپنے دل کی حقیقت کو جانتا ہے تو اسے مسلمان بننے کی طرف پہلا قدم اٹھانا چاہیے۔
اور جو شخص اپنی زندگی کا بہترین فیصلہ کرنے میں مدد لینا اور مسلمان بننے کے بارے میں رہنمائی چاہتا ہے؟
اس کے گناہ اسے اسلام میں داخل ہونے سے نہ روکیں کیوں کہ اللہ نے ہمیں قرآن میں اس بات کی خبر دی ہے کہ اگر وہ اسلام قبول کر لے اور اپنے خالق سے توبہ کر لے تو اللہ اس کے تمام گناہ معاف کردیتا ہے۔ حتى کہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی یہ فطری بات ہے کہ انسان سے کچھ گناہ سرزد ہو جائیں، کیونکہ ہم انسان ہیں معصوم فرشتے نہیں ہیں۔لیکن جو چیز ہم سے مطلوب ہے وہ یہ کہ ہم اللہ سے استغفار کریں اور اس سے توبہ کریں اور اگر اللہ نے ہمیں حق کو قبول کرنے میں' اسلام میں داخل ہونے میں اور شہادت کی ادائیگی میں جلدی کرتے ہوئے پایا تو وہ ہمیں دوسرے گناہوں کو چھوڑنے میں مدد کرے گا اور جو اللہ کی طرف رجوع کرے گا اور حق کی پیروی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کى مزید نیکیوں کی طرف رہنمائی کرے گا، اس لیے انسان کو اب اسلام میں داخل ہونے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :﴿قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَ﴾ "آپ ان کافروں سے کہہ دیجیے کہ اگر یہ لوگ باز آجائیں تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں، سب معاف کردیے جائیں گے"۔(سورہ انفال : 38)۔
مسلمان بننے کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا؟
اسلام میں داخل ہونا بہت آسان ہے، اس کے لیے رسم ورواج کی ادئیگى اور کسی کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں، صرف انسان پر یہ لازم ہے کہ وہ شہادتین کے معانی کو جانتے ہوئے اور ان پر ایمان لاتے ہوئے اپنی زبان سے کلمہ شہادتین ادا کرے، وہ اس طرح کہ یوں کہے: (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں)، اگر آپ عربی میں کہہ سکتے ہیں تو اچھی بات ہے اور اگر آپ کو دقت ہو تو آپ اپنی زبان میں بھی اسے ادا کر سکتے ہیں اور اس طرح آپ مسلمان ہو جائیں گے، اس کے بعد آپ پر لازم ہوگا کہ آپ اس دین کو سیکھیں جو دنیا میں آپ کی خوش بختی کا مصدر اور آخرت میں آپ کی نجات کا ذریعہ ہے۔
کائنات کو کس نے بنایا؟ مجھے کس نے پیدا کیا؟ اور کیوں پیدا کیا؟
یہ رب خالق اور رازق اللہ سبحانہ و تعالی ہے۔
معبود برحق رب (اللہ) صفاتِ کمال سے متصف ہے۔
اس عظیم خالق نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟ اور وہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟
کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ تمام رسولوں پر ایمان نہ لائے۔
اسلام سعادت وخوش بختی کا راستہ ہے۔
اسلام میں داخل ہونے سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟
اگر میں اسلام سے روگردانی کروں تو مجھے کیا نقصان ہوگا؟
مسلمان بننے کے لیے مجھ پر کونسی چیزیں ضروری ہیں؟
جس نے باپ دادا کی تقلید کرتے ہوئے حق کا انکار کیا اس کا کوئی عذر مقبول نہیں۔
جو شخص اسلام قبول کرنا چاہے اور اپنے رشتہ داروں کی اذیت سے خوفزدہ ہو' اسے کیا کرنا چاہیے؟