بچوں کو باطل ادیان پڑھانے کا حکم
زمرے
مصادر
Full Description
بچوں کو باطل ادیان پڑھانے کا حکم
[الأُردية –اُردو Urdu–]
فتوی : اسلام سوال وجواب سائٹ
ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ
مراجعہ وتنسیق:عزیز الرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ
حكم تدريس الدّيانات الباطلة للأطفال
فتوى: موقع الإسلام سؤال وجواب
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي
217084 : بچوں کو باطل ادیان پڑھانے کا حکم
سوال:میں ایسے تخصص کی تعلیم حاصل کر رہی ہوں جسکی وجہ سے میں بچوں کودینی تعلیم دے سکتی ہوں، اور چونکہ میں ایک یورپی عیسائی ملک میں رہتی ہوں، تو تدریسی نصاب مجھ سے اسلام، عیسائیت، یہودیت، ہندومت، اور بدھ مت دنیا کے پانچ بڑے بڑے مذاہب پڑھانے کا مطالبہ کرتا ہے، مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ بچوں کو یہ ادیان پڑھانا حرام ہوگا، لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ اسلام ہی صحیح دین ہے، اور میں اپنی اس بات سے کبھی بھی ایک قدم پیچھے نہیں ہٹوں گی، اب مسئلہ یہ ہے کہ متعدد افراد نے مجھ سے کہا ہے کہ بچوں کو ان ادیان کی تعلیم دینا جائز نہیں ہے، اور خاص طور پر اگر بچے مسلمان ہوں تو اور زیادہ حرام ہوگا، میں نے اپنے اس سوال کا جواب خوب تلاش کیا لیکن مجھے کوئی تشفی نہیں ہوئی، اب آپ سے اس بارے میں حکم کی وضاحت چاہتی ہوں۔
بتاریخ2014-05-25 کو نشر کیا گیا
جواب
الحمد للہ:
اصل بات یہ ہے کہ تحریف شدہ آسمانی کتب، باطل ادیان، اور حق مخالف مذاہب کی تعلیم دینا یا انکے بارے میں مطالعہ کرنا جائز نہیں ہے، الّا کہ انکے متعلق تحقیق کا مقصد لوگوں کو ان میں پائی جانے والی خرابی، عقل وفطرت سے اختلاف، اور لوگوں کے سامنے اللہ کے یہاں پسندیدہ دین اسلام کی حقانیت بتلانا مقصود ہو تو جائز ہے،ساتھ میں یہ بھی شرط ہے کہ تحقیق کرنے والا شخص حق بات کو اچھی طرح سمجھتا ہو، اور حق و باطل اور صحیح و غلط میں امتیاز کرنے کی صلاحیت کا مالک ہو، اسے اپنے آپ پر مکمل اعتماد ہو کہ وہ کسی شبہ اور فتنے میں مبتلا نہیں ہوگا، ایسے ہی دیگر ادیان کے متعلق تحقیق میں وہی لوگ قدم رکھیں جن کے بارے میں یہ امید ہو کہ وہ منحرف شیطانی ادیان کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کرسکتے ہیں، اور نمایاں کارکردگی دکھا سکتے ہیں، چنانچہ عام لوگوں کو اس قسم کی تحقیقات سے دور رکھا جائے، خاص طور پر عوام الناس اور بچوں کو کہ کہیں ان کے ذہن میں اپنے دین کے بارے میں کوئی شبہ اور وسوسہ سرایت نہ کرجائے۔
اس بارے میں حاشیہ ابن عابدین (175 / 1):میں ہے:
'' ہمیں غیرا سلامی ادیان کے بارے میں مطالعہ کرنے سے منع کیا گیا ہے، چاہے ان معلومات کو ہم تک کافر پہنچائیں یا نو مسلم افراد ''۔ انتہی
اسی طرح [ كشاف القناع عن متن الإقناع ] (1 / 434) میں ہے کہ:
''اہل کتاب کی کتابوں کا مطالعہ کرنا جائز نہیں ہے- امام احمد نے اس کی صراحت کی ہے- کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غضبناک ہوگئے تھے جب عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تورات کا ایک صحیفہ دیکھا تھا، اور فرمایا تھا: ''ابن خطاب! کیا مجھ میں شک کرتے ہو!؟۔۔۔ الخ'' الحدیث، اسی طرح اہل بدعت ، اور ایسی کتابیں جن میں حق و باطل دونوں موجود ہیں ایسی کتب کا مطالعہ کرنا ، انہیں آگے بیان کرنا منع ہے، کیونکہ انکی وجہ سے نقصان ہوگا، اور عقائد بگڑ جائیں گے''۔ انتہی
حافظ ابن حجر نے اہل کتاب کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا:
'' اس مسئلہ میں بہتر یہی ہے کہ کچھ تفصیل ہے، چنانچہ جس شخص کے دل میں ابھی تک ایمان راسخ نہیں ہوا ہو ، تو اس کیلئے اہل کتاب کی کتابیں پڑھنے کی اجازت نہیں ہے، جبکہ جو شخص راسخ ایمان کا مالک ہے، تو ایسا شخص مخالفین کی تردید کی ضرورت کے پیشِ نظر مطالعہ کرسکتا ہے، اس بات پر شروع سے لیکر اب تک ائمہ کرام کا عمل رہا ہے کہ وہ تورات سے یہود کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیقات نکال نکال کر دیکھاتے آئے ہیں، چنانچہ اگر یہ علمائے کرام اہل علم کے بارے میں ان کتابوں کے مطالعے کے جواز کے قائل نہ ہوتے تو کبھی بھی انکی کتابوں سے دلائل نہ لیکر آتے، اور صدیوں سے انکا یہ عمل جاری نہ رہتا''۔ انتہی
ماخوذ از: [ فتح الباری] از ابن حجر (525 /13)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
''کیا غیر اسلامی ادیان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے انکی کتابیں پڑھنا جائز ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا: ایسا کرنا مناسب نہیں، بالکل بھی مناسب نہیں، کہ تورات اور انجیل وغیرہ کو پڑھا جائے، کیونکہ اس سے ہو سکتا ہے کہ شکوک وشبہات جنم لیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ جب آپ نے عمرؓ کو تورات پڑھتے دیکھا تو فرمایا: (ابن خطاب! کیا مجھ میں شک کرتے ہو؟! میں تمہارے پاس روزِ روزشن کی طرح عیاں شریعت لیکر آیا ہوں، اگر موسی علیہ السلام خود بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری ہی اتباع کرنی پڑتی) چنانچہ مقصود یہ ہے کہ کوئی مسلمان قرآن کو چھوڑ کر دیگر آسمانی کتابوں: تورات و انجیل وغیرہ مت پڑھے، ہاں اگر علمائے کرام کو یہود ونصاریٰ کا انہی کی کتابوں سے رد کرنے کی ضرورت پڑے تو ضرورت پڑنے پر اہل علم و بصیرت انکی کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں''۔
ماخوذ از شیخ ابن باز ویب سائٹ :
http://www.binbaz.org.sa/mat/10748
چنانچہ اگر بڑوں کے بارے میں یہ حکم ہے تو بچوں کیلئے تو بالاولیٰ منع ہوگا، کیونکہ بچوں کی عقل ناقص ہوتی ہے، اس لئے انہیں ان ادیان کے بارے میں تعلیم دینا سراسر خرابی کا موجب ہوگا اس کے مثبت نتائج نہیں آئیں گے، کیونکہ آپ کو تدریس کے دوران باطل ادیان پر تنقید کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ آپ انکی تردید کر سکیں، اور حق بتلا سکیں، اور اگر آپ کو ا س کام کی اجازت دے بھی دی جائے تو شبہات اور انکا ردّ(توڑ ) بچوں کے سمجھ میں آنے والے نہیں ہیں، کیونکہ یہ درجہ بچوں کی عقل سے بالاتر ہے۔
واللہ اعلم .
اسلام سوال وجواب ویب سائٹ
(طالبِ دُعا:عزیزالرحمن ضیاء اللہ azeez90@gmail.com)