رمضان میں کثرت سے قرآن پڑھنے کی ترغیب
اس مادہ کے ترجمے
زمرے
Full Description
الحث على الإكثار من قراءة القرآن في رمضان
لفضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/ حفظه الله
باللغة الأردو
المترجم :سيف الرحمن التيمى
عنوان:
رمضان میں کثرت سے قرآن پڑھنے کی ترغیب
إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ)
(يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا)
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا)
حمد وثنا کے بعد!
سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد کا طریقہ ہے، سب سے بدترین چیز دین میں ایجاد کردہ بدعتیں ہیں، اور (دین میں) ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
· اے مسلمانو! میں تمہیں اور خود کو اللہ کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں، دار آخرت کی طرف سفر کرنے والوں کے لئے یہ سب سے بہترین توشہ ہے، اللہ تعالی فرما تا ہے: (وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى)
ترجمہ: اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے۔
یہ وہ وصیت ہے جو اللہ نے پہلے اور بعد کے تمام لوگوں کو کی ہے: (وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ)
ترجمہ: واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔
جو لوگ اللہ کا تقوى اختیار کرتے ہیں، ان کے لئے اللہ نے جنت تیار کر رکھا ہے: (وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ)
ترجمہ: کیا ہی خوب پرہیز گاروں کا گھر ہے۔
· اے اللہ کے بندو! رمضان ماہِ قرآن ہے، اللہ نے اس مہینے میں قرآن کو بیت العزت سے آسمان ِ دنیا کی طرف نازل فرمایا، پھر واقعات وحوادث کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دھیر ے دھیرے اتارا، بلکہ اللہ تعالی نے قرآن کے علاوہ دیگر کتابوں کو بھی رمضان ہی میں نازل فرمایا،واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے رمضان کی پہلی رات کو، تورات چھ رمضان کو، انجیل رمضان کے تیرہ دن گزرنے کے بعد ( یعنی چودھویں تاریخ) کواور قرآن مجید چوبیس دن گزرنے کے بعد ( یعنی پچیس) رمضان کو نازل ہوا"([1])۔
· اے مومنو! قرآن کی تلاوت ماہ رمضان میں کی جانی والی ایک اہم ترین عبادت ہے، کیوں کہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں کثرت سے قرآن کی تلاوت کرنا مستحب عمل ہے، سلف صالحین کا طریقہ تھا کہ وہ رمضان میں کئی دفعہ ختمِ قرآن کرنے کا اہتمام کرتے تھے، کوئی تین راتوں میں قرآن ختم کرلیتا ، تو کوئی چار دنوں میں ختم کرتا اور کوئی چار سے زائد دنوں میں قرآن ختم کرتا۔
· اے اللہ کے بندو! قرآن کی تلاوت ایک افضل ترین عباد ت اور تقرب الہی حاصل کرنے کا عظیم ترین ذریعہ ہے ، خواہ تہجد وتراویح میں تلاوت کی جائے یا نماز کے باہر تلاوت کی جائے ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی، اور ایک نیکی دس گنا بڑھا دی جائے گی، میں نہیں کہتا «الم» ایک حرف ہے، بلکہ «الف» ایک حرف ہے، «لام» ایک حرف ہے اور «میم» ایک حرف ہے“([2])۔
· ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو، سنگترے جیسی ہے جس کی خوشبو بھی پاکیزہ ہے اور مزہ بھی پاکیزہ ہے اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا، کھجور جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی لیکن مزہ میٹھا ہوتا ہے اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو، ریحانہ (پھول) جیسی ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن مزہ کڑوا ہوتا ہے اور جو منافق قرآن بھی نہیں پڑھتا اس کی مثال اندرائن جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور جس کا مزہ بھی کڑوا ہوتا ہے"([3])۔
· ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : "رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہونا چاہئے :ایک اس پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا اور وہ رات دن اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے ، اس کا پڑوسی سن کر کہہ اٹھے کہ کاش مجھے بھی اس جیسا علم قرآن ہوتا اور میں بھی اس کی طرح عمل کرتا اور وہ دوسرا جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے حق کے لیے لٹا رہا ہے۔ (اس کو دیکھ کر) دوسرا شخص کہہ اٹھتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی اس کے جتنا مال ہوتا اور میں بھی اس کی طرح خرچ کرتا"([4])۔
· عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : "اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے، مکرم اور لکھنے والے نیک (فرشتوں) جیسی ہے اور جو شخص قرآن مجید باربار پڑھتا ہے۔ پھر بھی وہ اس کے لیے دشوار ہے تو اسے دوگنا ثواب ملے گا"([5])۔
· ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر لوٹ کر جائے تو اسے تین بڑی موٹی حاملہ اونٹنیاں گھر پر بندھی ہوئی ملیں“؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں (کیوں نہیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جب کوئی شخص نماز میں تین آیتیں پڑھتا ہے، تو یہ اس کے لیے تین بڑی موٹی حاملہ اونٹنیوں سے افضل ہیں“([6])۔
· عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکل کر تشریف لائے۔ہم صفہ (چبوترے) پر موجود تھے ، آ پ نے فرمایا :" تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ روزانہ صبح بطحان ([7])یا عقیق([8]) (کی وادی) میں جائے اور وہاں سے بغیر کسی گنا ہ اور قطع رحمی کے دو بڑے بڑے کوہانوں والی اونٹنیاں لائے؟ " ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم سب کو یہ بات پسند ہے ، آپ نے فرمایا: "پھر تم میں سے صبح کوئی شخص مسجد میں کیوں نہیں جاتا کہ وہ اللہ کی کتاب کی دو آیتیں سیکھے یا ان کی قراءت کرے تو یہ اس کے لئے دو اونٹنیوں کے حصول سے بہتر ہے اور یہ تین آیات تین اونٹنیوں سے بہتر اور چار آیتیں اس کے لئے چار سے بہتر ہیں اور (آیتوں کی تعداد جو بھی ہو) اونٹوں کی اتنی تعداد سے بہتر ہے"([9])۔
· ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "قرآن پڑھا کرو، کیونکہ وہ قیامت کے دن اصحابِ قرآن (حفظ وقراءت اور عمل کرنے والوں ) کا سفارشی بن کر آئے گا"([10])۔
· یہ وہ چند احادیث ہیں جو رمضان او رغیر رمضان میں تلاوتِ قرآن کی ترغیب سے متعلق آئی ہیں، اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن کی برکتوں سے بہرہ مند فرمائے ، مجھے اور آپ کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے ، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ، آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله وكفى، وسلام على عباده الذين اصطفى، أما بعد:
آپ جان رکھیں-اللہ آپ پر رحم فرمائے -کہ بندہ مومن جب روزہ کے ساتھ تلاوت قرآن کا بھی اہتمام کرے تووہ اس کا زیادہ حقدار ہوتاہے کہ قیامت کے دن یہ اعمال اس کے حق میں سفارش کریں کہ اس کے درجات بلند کردئے جائیں اور گناہ مٹا دئے جائیں۔عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے حق میں سفارش کریں گے، روزہ کہے گا: (اے پالنہار! میں نے اسے کھانے پینے اور خواہشات نفس سے روکے رکھا ، اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما) اور قرآن کہے گا: (میں نے اسے رات میں سونے سے باز رکھا ،اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما) چنانچہ دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی ([11])۔
اللہ کے بندو! اللہ کے واسطے کثر ت سے نیکیاں کرو، نصف مہینہ گزر چکا ہے ، مومن پر اللہ کی یہ نعمت ہے کہ وہ ماہ رمضان میں ایک ساتھ دو جہاد کرے ، دن میں روزے رکھ کر جہا د کرے اور رات میں قیام کرکے جہاد کرے، جس نے ان دونوں جہاد کو ایک ساتھ انجام دیا اور ان (میں پیش آنے والی مشقتوں پر) صبر کیا تو و ہ اللہ کے اس فرمان میں داخل ہونے کا زیادہ مستحق ہے: (إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ)
ترجمہ: صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بےشمار اجر دیا جاتا ہے۔
آپ یہ بھی جان رکھیں –اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے - کہ اللہ تعالی نے آپ کو ایک بڑی چیز کا حکم دیا ہے، فرمان باری تعالی ہے:
(إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)
ترجمہ: اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:" تمہارے سب سے بہتر دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا[12]، اسی دن چیخ ہو گی[13] ۔ اس لیے تم لوگ اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، کیوں کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے"[14]۔اے اللہ !تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو ان کے خلفاء ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔
· اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکین کو ذلیل وخوار کر،تواپنے اور دین اسلام کے دشمنوں کو نیست ونابود کردے،اور اپنے موحد بندوں کی مدد فرما،اے اللہ! ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما،انہیں ہدایت کی رہنمائی کرنےوالا اور ہدایت پر چلنے والا بنا۔ اے اللہ! تمام مسلم حکمرانو ں کو اپنی کتاب کو نافذ کرنے اور اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔
· اے اللہ ! ہم سے اس وبا کو دور کردے، یقینا ہم مسلمان ہیں، اے اللہ ! ہم سے اس وبا کو دور کر دے، یقینا ہم مسلمان ہیں، اے اللہ ! ہم سے اس وبا کو دور کردے ، یقینا ہم مسلمان ہیں، اے اللہ ! پوری دنیاکے مسلمان اس وبا سے پریشا ن ہیں، اے دونوں جہان کے پالنہار! ان سے اس وبا کو دور فرمادے۔اے اللہ ! ہر مصیبت گناہ کی وجہ سے ہی نازل ہوتی ہے، اور توبہ سے ہی دور ہوتی ہے، ہم توبہ کے ساتھ اپنے ہاتھ تیرے دربار میں اٹھائے ہوئے ہیں اور پیشانیاں تیرے در پر خم کرر کھے ہیں(ہماری توبہ قبول کرلے)۔
· اے اللہ! ہمیں رمضان میں نیک عمل کی توفیق واعانت نصیب فرما۔
· اے اللہ! ہمارے دین کو درست کردے جو ہمارے (دین ودنیا کے ) ہر کام کے تحفظ کا ذریعہ ہے او ر میری دنیا کو درست کردے جس میں میری گزران ہے او رمیری آخرت کو درست کردے جس میں میرا (اپنی منزل کی طرف) لوٹنا ہے اور میری زندگی کو میرے لیے ہر بھلائی میں اضافے کا سبب بنادے اور میری وفات کو میرے لیے ہر شر سے راحت بنا دے۔
· اے اللہ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں تیری نعمت کے زوال سے ، تیری عافیت کے ہٹ جانے سے ، تیری ناگہانی سزا سے اور تیری ہرطرح کی ناراضی سے۔
· اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال ۔اے ہمارے رب! بے شک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے۔
· اے اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے قول وعمل کا سوال کرتے ہیں، اور تیری پناہ چاہتے ہیں جہنم اور اس کے قریب لے جانے والے قول وعمل سے ۔
· اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات بخش۔
سبحان ربك رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين
از قلم:
ماجد بن سلیمان الرسی
۱۸ رمضان ۱۴۴۲ھ
شہر جبیل-سعودی عرب
00966505906761
رابطہ مترجم:
binhifzurrahman@gmail.com
([1]) اسے احمد (۴/۱۰۷) نے روایت کیا ہے اور البانی نے "الصحیحۃ" (۱۵۷۵) میں اسے حسن کہا ہے۔
([2]) اسے ترمذی (۲۹۱۰) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
([3]) اسے بخاری (۵۴۲۷) اور مسلم (۷۹۷) نے روایت کیا ہے۔
([4]) اسے بخاری (۵۰۲۶) نے روایت کیا ہے۔
([5]) اسے بخاری(۴۹۳۷) اور مسلم (۷۹۸) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ بخاری کے روایت کردہ ہیں۔
([6]) مسلم (۸۰۲)
([7]) مدینہ کی وادی ہے۔
([8]) مدینہ کی ایک وادی ہے۔
([9]) مسلم (۸۰۳)
([10]) مسلم (۸۰۴)
([11]) اسے احمد (۲/۱۷۴) نے روایت کیا ہے اور البانی نے "صحیح الترغیب" (۹۸۴) اور "صحیح الجامع" (۷۳۲۹) میں اسے صحیح کہا ہے۔
[12] یعنی صور میں دوسری بار پھونک مارا جائے گا، اس سے مراد وہ صور ہے جس میں اسرافیل پھونک ماریں گے، یہ وہ فرشتہ ہیں جن کو صور میں پھونک مارنے پر مامور کیا گیا ہے، جس کے بعد تمام مردے اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔
[13] یعنی جس سے دنیاوی زندگی کے اخیر میں لوگ بے ہوش ہوکر گر پڑیں گےاور سب کے سب مر جائیں گے، یہ بے ہوشی اس وقت پیدا ہوگی جب صور میں پہلی بار پھونک مارا جائے گا، دو پھونکوں کے درمیان چالیس سالوں کا فاصلہ ہوگا۔
[14] اسے نسائی( ۱۳۷۳) ، ابو داود (۱۰۴۷) ، ابن ماجہ (۱۰۸۵) اور احمد (۴/۸) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ابی داود میں اور مسند کے محققین نے (حدیث: ۱۶۱۶۲) کے تحت اسے صحیح کہا ہے۔